سوال:
السلام علیکم، حضرت ! میں نے آپ کا ایک فتوی دیکھا تھا، جس میں درج تھا کہ قبر میں تین سوال ہونگے، حالانکہ ایک صحیح حدیث موجود ہے، جس میں چوتھے سوال کا بھی ذکر موجود ہے، إنَّ الميتَ ليسمعُ خفقَ نِعالِهم حين يُولُّونَ ، قال : ثم يجلسُ ، فيقال له : من ربُّك ؟ فيقول : اللهُ ، ثم يقال له : ما دِينُك ؟ فيقول : الإسلامُ ، ثم يقال له : ما نبيُّكَ ؟ فيقول : محمدٌ ، فيقال : وما عِلْمُك ؟ فيقول : عرفتُه ، آمنتُ به ، وصدَّقْتُه بما جاء به منَ الكتابِ ثم يُفسحُ له في قبرِه مدَّ بصرِه ، وتُجْعَلُ روحُه مع أرواحِ المؤمنينَ۔ براہ کرم دونوں میں تطبیق کی صورت بیان فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ قبر میں فرشتے میت سے بنیادى طور پر تین باتوں کے بارے میں سوالات کرتے ہیں: رب، دین اور نبى کے بارے میں، جس کے الفاظ یوں ہوتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرے نبی کون ہیں؟
اس کے بعد مزید سوال (جو کہ در اصل تیسرے سوال ہى کى تکمیل ہے ) یہ ہوتا ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کا نبى ہونا تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ جس کى تفصیل سنن ابی داود کى روایت میں بیان ہوئى ہے، ذیل میں اس روایت کو بیان کیا جاتا ہے، جس میں سوالات وجوابات کا بھی ذکر ہے اور مزید احوالِ قبر کا ذکر ہے:
ترجمہ:حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہماکہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی انصاری آدمی کے جنازہ میں نکلے، پس ہم قبر پر جا پہنچے جو ابھی لحد نہیں بنائی گئی تھی، رسول اللہ ﷺ وہاں بیٹھ گئے اور آپ کے اردگرد ہم بھی (ادب کے ساتھ خاموشی سے) بیٹھ گئے، گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، جس سے آپ زمین پر کرید رہے تھے آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور دو یا تین مرتبہ فرمایا: "اللہ کی پناہ مانگو عذاب ِقبر سے"۔ جریر(راوى حدیث) کی روایت میں یہ بھی اضافہ ہے کہ آپ نے فرمایا:" جب دفن کرنے والے منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں، تو مردہ ان کے جوتوں کی دھمک سنتا ہے، اس وقت اس سے کہا جاتا ہے :اے شخص !تیرا رب کون ہے؟ اور تیرا مذہب کیا ہے؟ اور تیرے نبی کون ہیں؟"۔
ہناد (راوى حدیث) نے اپنی روایت میں فرمایا ہے : "اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں:تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے، وہ دونوں کہتے ہیں کہ یہ کون صاحب ہیں، جو تمہارے درمیان بھیجے گئے تھے؟ وہ کہتا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ ہیں، وہ دونوں کہتے ہیں کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب میں پڑھا ہے، اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی"۔ جریر (راوى حدیث )کی روایت میں یہ اضافہ بھى ہے : "یہی مراد ہے اللہ کے اس ارشاد کى:"يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ "۔ پھر (اللہ کی طرف سے) ایک آواز لگانے والا آواز لگاتا ہے کہ میرے بندہ نے سچ کہا، پس اس کے لیے جنت کا بستر بچھا دواور اس کے لیے جنت میں ایک دروازہ کھول دو اور اسے جنت کے کپڑے پہنا دو "، فرمایا:"جنت کی ہوا اور خوشبو اس کے پاس آتی ہیں اور اس کی قبر حدِ نگاہ تک کشادہ کردی جاتی ہے"۔ اور فرمایا: "کافر جب مرتا ہے، اس کی روح کو جسم میں لوٹایا جاتا ہےاور دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، اسے بٹھلاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے:ہائے ہائے میں نہیں جانتا، وہ کہتے ہیں کہ یہ آدمی کون ہیں، جو تم میں بھیجے گئےتھے؟ وہ کہتا ہے :ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پس آسمان سے ایک منادی آواز لگاتا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا، اس کے لیے آگ کا بستر بچھا دو اور آگ کا لباس پہنادو اور جہنم کا ایک دروازہ اس کی قبر میں کھول دو"، فرمایا کہ جہنم کی گرمی اور گرم ہوا اس کے پاس آتی ہے اور اس کی قبر اس قدر تنگ کردی جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتی ہیں"۔ جریر (راوی حدیث) کی روایت میں یہ اضافہ بھى ہے کہ "پھر اس پر ایک اندھا بہرا فرشتہ (یعنی جو کسی کی فریاد نہیں سنتا) مقرر کردیا جاتا ہے، اس کے پاس لوہے کا ایک ایسا گرز ہوتا ہے، جو اگر پہاڑ پرمارا جائے، تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائے"، فرمایا: "وہ گرز سے اس مردے کو مارتا ہے، اس کی مار کی آواز سے مشرق و مغرب کے درمیان ہر چیز سنتی ہے، سوائے جن وانس کے اور وہ مردہ بھی مٹی ہو جاتا ہے، پھر اس میں روح دوبارہ ڈال دی جاتی ہے"۔(سنن أبي داود: حديث نمبر: 4753) (1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(1) سنن أبي داود: کتاب السنة/ باب في المسألة في القبر وعذاب القبر، 7/ 131، رقم الحديث (4753)، ط: دار الرسالة العالمية، بتحقيق الشيخ شعيب الأرنؤوط)
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير. وحدثنا هناد بن السري، حدثنا أبو معاوية -وهذا لفظ هناد- عن الأعمش، عن المنهال، عن زاذان عن البراء بن عازب، قال: خرجنا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في جنازة رجل من الأنصار، فانتهينا إلى القبر ولما يلحد، فجلس رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وجلسنا حوله، كأنما على رؤوسنا الطير، وفي يده عود ينكت به في الأرض، فرفع رأسه، فقال: "استعيذوا بالله من عذاب القبر" مرتين أو ثلاثا، زاد في حديث جرير ها هنا: وقال: "وانه ليسمع خفق نعالهم إذا ولوا مدبرين، حين يقال له: يا هذا، من ربك وما دينك ومن نبيك؟ - قال هناد:- ويأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له: من ربك؟ فيقول: ربي الله، فيقولان له: ما دينك؟ فيقول: ديني الإسلام، فيقولان له: ما هذا الرجل الذي بعث فيكم؟ فيقول: هو رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فيقولان: وما يدريك؟ فيقول: قرأت كتاب الله، فآمنت به، وصدقت -زاد في حديث جرير- فذلك قول الله عز وجل: (يثبت الله الذين آمنوا)، ثم اتفقا قال: - فينادي مناد من السماء: أن قد صدق عبدي، فأفرشوه من الجنة، وافتحوا له بابا إلى الجنة، وألبسوه من الجنة" قال: "فيأتيه من روحها وطيبها قال: "ويفتح له فيها مد بصره". قال: "وإن الكافر" فذكر موته قال: "وتعاد روحه في جسده، ويأتيه ملكان، فيجلسانه، فيقولان له: من ربك؟ فيقول: هاه هاه، لا أدري، فيقولان له: ما دينك؟ فيقول: هاه هاه، لا أدري، فيقولان له: ما هذا الرجل الذي بعث فيكم؟ فيقول: هاه هاه، لا أدري، فينادي مناد من السماء: أن كذب، فافرشوه من النار، وألبسوه من النار، وافتحوا له بابا إلى النار، قال: "فيأتيه من حرها وسمومها" قال: "ويضيق عليه قبره حتى تختلف فيه أضلاعه -زاد في حديث جرير: قال:- ثم يقيض له أعمى أبكم معه مرزبة من حديد، لو ضرب بها جبل لصار ترابا"، قال: "فيضربه بها ضربة يسمعها ما بين المشرق والمغرب إلا الثقلين، فيصير ترابا، ثم تعاد فيه الروح".
واللہ تعالى اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچى