سوال:
قرآن و حدیث کے موجود ہوتے ہوئے ہم فقہ کی پیروی کیوں کرتے ہیں؟ کیا کسی مسلک کی پیروی کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟
جواب: واضح رہے کہ فقہ درحقیقت قرآن کریم اور احادیث طیبہ سے ماخوذ اصول اور احکام کے مجموعے کا نام ہے، گویا کہ فقہ قرآن وحدیث ہی کے احکام کا نچوڑ اور حاصل ہے۔ بعض لوگوں کو فقہ کا درست مفہوم معلوم نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے وہ فقہ کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہوکر فقہ سے براءت کا اظہار کرکے براہ راست قرآن وحدیث سے استفادہ کرنے کا مجتہدانہ دعویٰ کر بیٹھتے ہیں، لیکن فقہ کی مذکورہ بالا تعریف سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ فقہ کوئی خود ساختہ اور من گھڑت علم نہیں ہے، بلکہ یہ ائمہ مجتہدین خصوصاً ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کی سالہا سال کی محنتوں کا حاصل ہے۔
لہذا اگر کوئی شخص کسی فقیہ کی فقہ کو ماننے کے بجائے خود ہی براہ راست قرآن و حدیث سے احکام نکال کر اس پر عمل کرنا شروع کردے تو اس شخص کا انجام گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا، ایسا شخص نہ صرف یہ کہ از خود گمراہ ہوتا ہے، بلکہ مزید دیگر لوگوں کی گمراہی کا ذریعہ بھی بنتا ہے، اسی گمراہی سے بچانے کے لیے عوام الناس کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک فقیہ کی مکمل فقہ پر پابندی کے ساتھ عمل کریں۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ہندوستان اور اس کے گرد و نواح کے لوگوں کے لیے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرنے کو لازم قرار دیا ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں: "اگر کوئی شخص ہندوستان یا ما وراء النہر کے علاقے کا باشندہ ہو اور ان علاقوں میں کوئی شافعی یا مالکی یا حنبلی جید عالم دین نہ ہو اور نہ ہی ان کے مذہب کی کتابوں میں سے کوئی کتاب ہو تو ایسے شخص کے لیے فقہ حنفی کو چھوڑنا حرام ہے، کیونکہ کسی خاص فقہ کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں وہ شخص شریعت کو چھوڑ بیٹھے گا اور خواہشات کے پیچھے چل کر بے کار ہوجائے گا"۔
ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں: " ائمہ اربعہ کے مذاہب کی تقلید پر تمام علماء کا شعوری یا لا شعوری طور پر اتفاق کرلینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک الہام اور حکمتوں پر مبنی ایک راز ہے"۔
معلوم ہوا کہ خود قرآن وحدیث پر عمل کرنے کا دعوی نہ صرف یہ کہ ایک گمراہ کن دعوی ہے، بلکہ امت کے مستند علمائے کرام پر بے اعتمادی کا بھی عکاس ہے۔
نیز یہ کہنا کہ "قرآن وحدیث پر عمل کرنا چاہیے نہ کہ کسی امام کے فقہ پر،" اگرچہ بظاہر بڑا اچھا نعرہ ہے، لیکن حقیقت میں یہ انتہائی گمراہی پر مبنی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ امت کے اسلاف اور اکابر علمائےکرام بشمول مفسرین، محدثین اور فقہاء کرام نے کبھی بھی یہ نعرہ نہیں لگایا؟ کیا ہمیں ان حضرات سے زیادہ قرآن وحدیث کی سمجھ بوجھ ہے؟ کیا انہیں قرآن وحدیث پر عمل کرنے کا شوق وجذبہ نہیں تھا؟ لیکن اس کے باوجود امت کے اکابر مفسرین (امام رازی، حافظ ابن کثیر، علامہ آلوسی، امام قرطبی، علامہ نسفی وغیرہ)، محدثین (امام مسلم، امام ترمذی، امام طحاوی، امام ابوداؤد وغیرہ) فقہائے کرام (امام سرخسی، علامہ کاسانی، امام نووی، ابن رجب حنبلی، امام ابن عبد البر وغیرہ) یہ سب حضرات کسی نہ کسی امام کے مقلّد رہے ہیں، حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں مختلف تفاسیر سمیت احادیث مبارکہ کی لاکھوں اسناد اور ہزاروں متون زبانی یاد تھے، لہذا اس معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عوام الناس کے ذمہ واجب ہے کہ وہ از خود قرآن وحدیث سے احکام نہ نکالیں، بلکہ اس معاملے میں ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کے فقہ کی مکمل تابعداری کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الانصاف في بيان اسباب الاختلاف للشاه ولي الله الدهلوي: (73/1، ط: دار النفائس)
وبالجملة فالتمذهب للمجتهدین سر ألهمه اللہ تعالی العلماء وتبعهم علیه من حیث یشعرون أو لا یشعرون
و فيه أيضا: (79/1، ط: دار الحديث)
وعلى هذا ينبغي أن القياس وجوب التقليد لامام بعينه فانه قد يكون واجبا وقد لا يكون واجبا فاذا كان انسان جاهل في بلاد الهند أو ما وراء النهر وليس هناك عالم شافعي ولا مالكي ولا حنبلي ولا كتاب من كتب هذه المذاهب وجب عليه ان يقلد لمذهب أبي حنيفة ويحرم عليه ان يخرج من مذهبه لأنه حينئذ يخلع ربقة الشريعة ويبقى سدى مهملا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی