سوال:
اس امت میں تہتر فرقے ہوں گے، ان میں سے ایک جنت میں جائے گا اور باقی بہتر جہنم میں جائیں گے۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب: امت کی تہتر فرقوں میں تقسیم حدیث شریف میں بیان کی گئی ہے، ذیل میں مکمل حدیث ترجمہ اور تشریح کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے:
عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آ چکی ہے، (یعنی مماثلت میں دونوں برابر ہوں گے) یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگر اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہو گا جو اس فعل شنیع کا مرتکب ہو گا، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اورمیری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! یہ کون سی جماعت ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے‘‘۔ (سنن الترمذی،حدیث نمبر: 2641، ط: شركة مصطفى البابي الحلبي)
تشریح:
١۔ہمارے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کی اُمت دو قسم کی ہے: ایک اُمت دعوت، دوسری: اُمتِ اجابت۔
آپ ﷺ کی بعثت سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انسان اور جنات جو ایمان نہیں لائے یا نہ لائیں گے، وہ سب امت دعوت کہلاتے ہیں اور جو ایمان لائے، وہ امت اجابت کہلاتے ہیں۔
۲۔ مذکورہ بالا حدیث میں ’’امت ‘‘ سے مراد ’’امت اجابت‘‘ ہے، ’’امت دعوت ‘‘ مراد نہیں ہے، یعنی مسلمانوں کے تہتر فرقے مراد ہیں، جن میں سے ایک نجات پانے والا ہوگا، کیونکہ کفار کے بے شمار فرقے ہیں۔(۲)
۳۔ حدیث شریف میں کہا گیا ہے "کلھم فی النار" (وہ تمام فرقےجہنم میں ہوں گے) اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سب اپنے غلط عقائد اور بد اعمالیوں کی بنا پرجہنم میں داخل کیے جائیں گے اور ان کا جہنم میں داخل ہونا ہمیشہ کے لیے نہیں ہوگا، بلکہ یہ فرقے اپنی گمراہی کی سزا پانے کے بعد جہنم سے نکالے جائیں گے، بشرطیکہ ان کے عقائد واعمال اس درجہ خراب نہ ہوں کہ وہ کفر دائرے میں آتے ہوں۔
۴۔ نجات پانے والے فرقے سے متعلق جناب رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ما انا علیہ واصحابی(جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوگی )اس جماعت سے مراد "اہلِ سنت والجماعت" ہیں۔
٥۔’’اہل ِ سنت والجماعت‘‘وہ مسلمان ہیں، جو عقائد واحکام میں حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کے مسلک پر ہوں اور قرآن کریم کے ساتھ سنّتِ نبویہﷺ کو بھی حجت مانتے ہوں، اور اس پر عمل کرتے ہوں اور دین میں اپنی طرف سے کچھ کمی، زیادتی کرنے والے نہ ہوں اور جو فرقہ اس قسم کے عقائدِ صحیحہ نہ رکھتا ہو، وہ نجات پانے والا نہیں ہے۔(۳)
خلاصۂ کلام:
حدیث شریف میں امت سے مراد "امت اجابت" ہے، یعنی اہلِ قبلہ اور مسلمان اس کا مصداق ہیں،جو سب کے سب جہنم سے نجات پائیں گے، البتہ بعض لوگوں کو حساب و کتاب کے بعد ہی سے جہنم سے نجات مل جائے گی اور یہی وہ فرقہ ناجیہ ہے، جسے ’’اہل ِسنت والجماعت‘‘ کہا جاتا ہے، جب کہ بعض لوگ جہنم میں داخل ہو کر اپنے گناہوں کی سزا کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نجات حاصل کریں گے اور یہ وہ باقی بہترفرقے ہوں گے اور جو لوگ فاسد عقائد کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوکر دائرہ کفر میں داخل ہوگئے ہیں، جیسے: ذکری، آغاخانی، بوہری، منکرین حدیث اور قادیانی وغیرہ، یہ فرقے غیرناجیہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱)سنن الترمذي: (5/26)رقم الحدیث: 2641، ط: شركة مصطفى البابي الحلبي)
عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل، حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان في أمتي من يصنع ذلك، وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة، كلهم في النار إلا ملة واحدة، قالوا: ومن هي يا رسول الله؟ قال: ما أنا عليه وأصحابي.
(۲)مرقاۃ المفاتیح: (1/259، ط: دار الفکر)
(وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة)، قيل: فيه إشارة لتلك المطابقة مع زيادة هؤلاء في ارتكاب البدع بدرجة، ثم قيل: يحتمل أمة الدعوة فيندرج سائر الملل الذين ليسوا على قبلتنا في عدد الثلاث والسبعين، ويحتمل أمة الإجابة فيكون الملل الثلاث والسبعون منحصرة في أهل قبلتنا، والثاني هو الأظهر، ونقل الأبهري أن المراد بالأمة أمة الإجابة عند الأكثر
(۳)مرعاۃ المفاتیح لمباركفوري: (1/275، ادارة البحوث العلمیة)
أن الفرقة الناجية من اتصف بأوصافه عليه السلام، وأوصاف أصحابه، وكان ذلك معلوماً عندهم غير خفي، فاكتفى به، وربما يحتاج إلى تفسيره بالنسبة إلى من بعد تلك الأزمان. وحاصل الأمر أن أصحابه كانوا مقتدين به، مهتدين بهديه، وقد جاء مدحهم في القرآن، وأثنى عليهم متبوعهم محمد - صلى الله عليه وسلم -، وإنما خلقه - صلى الله عليه وسلم - القرآن، فالقرآن إنما هو المتبوع على الحقيقة، وجاءت السنة مبينة له، فالمتبع للسنة متبع للقرآن، والصحابة كانوا أولى الناس بذلك، فكل من اقتدى بهم فهو من الفرقة الناجية الداخلة للجنة بفضل الله، وهو معنى "ما أنا عليه وأصحابي"، فالكتاب والسنة هو الطريق المستقيم، وما سواهما من الإجماع وغيره فناشيء عنهما، هذا هو الوصف الذي كان عليه النبي - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه، وهو معنى ما جاء في الرواية الأخرى "وهي الجماعة"؛ لأن الجماعة في وقت الإخبار كانوا على ذلك الوصف، انتهى. قلت: وهو معنى ما جاء في حديث أبي أمامة عند الطبراني: ((كلهم في النار إلا السواد الأعظم)) . وأصرح من ذلك ما رواه الطبراني أيضاً عن أبي الدرداء، وواثلة، وأنس بلفظ: ((كلهم على الضلالة إلا السواد الأعظم. قالوا يا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من السواد الأعظم؟ قال: من كان على ما أنا عليه وأصحابي)) . فالمراد "بالجماعة" و"السواد الأعظم" و"ما أنا عليه وأصحابي" شيء واحد، ولا شك أنهم أهل السنة والجماعة.
کذا فی الفصل في الملل و الأهواء والنحل لابن حزم الظاھری: (2/90، ط: مکتبة الخانجی، القاھرة)
کذا في امداد الاحکام: (1/169، ط: مکتبة دار العلوم کراتشی)
کذا في فتاوي رحمیه: (2/56، ط: دار الاشاعت)
کذا في مظاہر حق: (1/210، ط: دار الاشاعت)
کذا في تحفة الالمعي: (6/421، ط: زمزم ببلشرز)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی