سوال:
مفتی صاحب ! میرے شوہر نے 2019 میں مجھے دو طلاقیں دی تھیں، اس کے بعد ہمارا تجدیدِ نکاح ہوگیا تھا، پھر پچھلے سال اکتوبر میں اپنی زبان سے ایک مرتبہ طلاق کا لفظ کہا، اور اس کے ٹھیک ایک مہینے بعد سادے کاغذ پر تین مرتبہ طلاق ہونے کا طلاق نامہ تحریر کردیا، اس کے بعد میں نے اپنی امی کے گھر آکر عدت گزار لی، لیکن وہ مجھت طلاق نامہ نہیں بھجوارہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ میرے مطابق طلاق نہیں ہوئی ہے۔
براہ کرم اس مسئلے میں آپ ہماری شرعی رہنمائی فرمادیں، کیونکہ اس مسئلے کی وجہ سے ہم بہت عاجز آگئے ہیں، میں ان کے والد سے بھی طلاق نامہ کا مطالبہ کرچکی ہوں، لیکن وہ لوگ کوئی جواب نہیں دے رہے ہیں۔
تنقیح:
محترمہ! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ بقول آپ کے شوہر کے میرے مطابق طلاق نہیں ہوئی، اس سے ان کی کیا مراد ہے؟
آیا وہ طلاق سے ہی انکار کر رہے ہیں؟ یا وہ طلاق کا تو اقرار کر رہے ہیں، لیکن اس کے واقع ہونے کا انکار کر رہے ہیں اور اس کی کیا وجہ بیان کرتے ہیں۔
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
جواب تنقیح:
محترم ! آپ نے جو دو صورتیں بیان کی ہیں، وہ دونوں ہیں، اب میرے شوہر نے مجھے طلاق نامہ بھی بھیج دیا ہے اور اس میں ان کے دستخط اور انگھوٹے کے نشان بھی ہیں، اور طلاق نامہ میں انہوں نے گواہوں کی موجودگی کا ذکر کیا ہے، حالانکہ اس وقت میں دوسرے کمرے میں عدت میں بیٹھی ہوئی تھی، اور میرے بھائی مغرب کی نماز پڑھنے گئے ہوئے تھے، کیا طلاق واقع ہوگئی ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔
جواب: سوال اور اس کی تنقیحات کے جواب میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق آپ پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، لہذا آپ دونوں کا نکاح ختم ہو چکا ہے اور میاں بیوی دونوں ایک دوسرے پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکے ہیں۔
البتہ اگر آپ عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کریں اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم ہوں، پھر وہ اپنی مرضی سے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہو جائے، پھر عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرنا چاہیں، تو ایسا کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 230)
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَo
الهداية: (باب الرجعة، 257/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
"إن كان الطلاق ثلاثا في الحرة أو ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها".
الھندیۃ: (الباب السادس في الرجعة، 473/1، ط: ماجدیة)
’’وإن كان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجاً غيره‘‘.
رد المحتار: (246/3، ط: دار الفکر)
"وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو".
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (254/10، ط: انوار القرآن)
"6- ذهب الفقهاء إلى أن من طلق زوجته طلقة رجعية أو طلقتين رجعيتين جاز له إرجاعها في العدة۔۔۔أما إذا طلق زوجته ثلاثا، فإن الحكم الأصلي للطلقات الثلاث هو زوال ملك الاستمتاع وزوال حل المحلية أيضا، حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر، لقوله تعالى: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی