عنوان: نفس اور شیطان میں فرق(8412-No)

سوال: شیطان اور نفس انسان کو کیسے بہکاتے ہیں اور ان میں کیا فرق ہے؟ براہ کرم واضح فرمادیں۔

جواب: انسان کے اندر ایک طاقت ہے جس سے وہ کسی چیز کی خواہش کرتا ہے، خواہ وہ خواہش بھلائی کی ہو یا برائی کی، اس کو "نفس" کہتے ہیں، جبکہ شیطان اپنے خاص معنی کے اعتبار سے ابلیس اور اس کی اولادکو کہاجاتا ہے، اور اپنے عمومی معنی کے اعتبار سے ہر باغی و سرکش مخلوق کو شیطان کہا جاتا ہے، خواه وه انسانوں میں سے ہو یا جنات و حیوانات میں سے۔
نفس اور شیطان میں مختلف اعتبار سے فرق ہے:
۱)نفس شیطان سے قوی ہے، کیونکہ جس وقت ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا، اس وقت شیطان نہیں تھا، بلکہ ابلیس کے نفسِ امّارہ نے اس کو سجدہ کرنے سے روکا تھا، اسی وجہ سے نفس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے: واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی فان الجنۃ ھی الماوٰی۔ (سورۃ النازعات، الآیة: 40، 41) ترجمہ: "لیکن وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی"۔
اس آیت سے نفس کا قوی ہونا معلوم ہوتا ہے،جبکہ شیطان کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: انّ کیدالشیطان کان ضعیفا (سورۃ النساء، الآیة:76) ترجمہ: "(یاد رکھو کہ) شیطان کی چالیں درحقیقت کمزور ہیں۔ لہذا واضح ہوگیا کہ نفس شیطان سے قوی اور بڑا دشمن ہے"۔
۲) شیطان کا کام انسان کے دل میں صرف وسوسے ڈالنا ہے، مگر جب انسان زیادہ دھیان نہیں دیتا تو وہ وسوسےفوراً ختم ہو جاتے ہیں، لیکن اگر بار بار دل میں وسوسے آرہے ہوں اور گناہ کا تقاضا بار بار ہورہا ہو تو یہ نفس کی طرف سے ہے، اور اگر ایک دفعہ ایک گناہ کا تقاضا ہوا اور پھر اگلی مرتبہ دوسرے گناہ کا تو یہ تقاضا شیطان کی طرف سے ہو گا، کیونکہ شیطان کو گناہ سے کوئی لذت اور سرور حاصل نہیں ہوتی، اس کا مقصد انسان سے صرف کوئی گناہ کرانا ہے، جبکہ نفس کو لذت اور سرور بھی حاصل ہوتی ہے۔
۳) نفس گناہوں پر ابھارتا ہے، قرآن مجید میں ہے: إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ (سورۃ یوسف، الایة:53)ترجمہ:"واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے"۔
جبکہ شیطان صرف گناہ کی دعوت اورمشورہ دیتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي (سورۃ ابراہیم، الایة :22)
ترجمہ: "اور جب ہر بات کا فیصلہ ہوجائے گا تو شیطان (اپنے ماننے والوں سے) کہے گا : حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو اس کی خلاف ورزی کی، اور مجھے تم پر اس سے زیادہ کوئی اختیار حاصل نہیں تھا کہ میں نے تمہیں (اللہ کی نافرمانی کی) دعوت دی تو تم نے میری بات مان لی"۔
اس آیت میں لفظِ "دعوتکم" (میں نے تمہیں اللہ کی نافرمانی کی دعوت دی) سے پتا چلتا ہے کہ شیطان صرف گناہ کا مشورہ دیتا ہے، لہذا واضح ہوا کہ گناہ کا اصل داعی نفس ہوتا ہے، کیونکہ نفس مہیج ہے اور شیطان مشیر (یعنی گناہ کرنے کا مشورہ دیتا )ہے۔ (مستفاد ازملفوظات حکیم الامت:437/26)
۴) جب انسان غافل ہوتا ہے تو شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے اور جب وہ اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول ہو جاتا ہے تو اس وقت وہ بھاگ جاتا ہے، لیکن نفس ہر وقت گناہ پر ابھارتا رہتا ہے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے "الوسواس الخناس" کی تفسیر میں منقول ہے کہ "الشیطانُ جاثمٌ علیٰ قلبِ ابنِ ادمَ، فَإذا سَهَا و غَفَلَ وَسْوَسَ وَإِذا ذَکر الله خنسَ" یعنی ’’شیطان اولادِ آدم کے دل پر بیٹھ جاتا ہے، پس جب بندہ (اللہ تعالی کو) بھول جاتا ہے اور غفلت میں پڑجاتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالتا ہے اور جب بندہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
خلاصہ کلام : نفس اور شیطان دونوں ہی انسان کے دشمن ہیں اور دونوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنی چاہیے، حدیث شریف میں ہے کہ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں جناب نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺمسجد میں تشریف فرما تھے، میں آپ کے پاس بیٹھ گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو ذر! شیاطین جن اور شیاطین انس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ فرمایا : ہاں! اس لیے نفس اورشیطان دونوں کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنی چاہیے۔ اللہ تعالی ہمیں نفس اورشیطان کے شرسے محفوظ فرمائے۔ (آمین)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مصنف ابن أبي شيبة: (رقم الحدیث: 35919، ط: مکتبة دار القبلة)
جرير، عن منصور، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس في قوله: {الوسواس الخناس} [الناس: ۴]، قال: «الشيطان جاثم على قلب ابن آدم، فإذا سها وغفل وسوس، وإذا ذكر الله خنس»

سنن النسائی: (رقم الحدیث: 5522، ط: دار الحدیث)
عن أبي ذر قال: دخلت المسجد ورسول الله صلى الله عليه وسلم فيه، فجئت فجلست إليه، فقال: «يا أبا ذر، تعوذ بالله من شر شياطين الجن والإنس» قلت: أو للإنس شياطين؟ قال: «نعم»

تفسیر الرازی: (120/13، ط: دار إحياء التراث العربی)
اختلفوا في معنى شياطين الإنس والجن على قولين الأول أن المعنى مردة الإنس والجن والشيطان كل عات متمرد من الإنس والجن وهذا قول ابن عباس في رواية عطاء ومجاهد والحسن وقتادة وهؤلاء قالوا إن من الجن شياطين ومن الإنس شياطين وإن الشيطان من الجن إذا أعياه المؤمن ذهب إلى متمرد من الإنس وهو شيطان الإنس فأغراه بالمؤمن ليفتنه والدليل عليه ما،روي عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال لأبي ذر: «هل تعوذت بالله من شر شياطين الجن والإنس؟» قال قلت وهل للإنس من شياطين؟ قال «نعم هم شر من شياطين الجن» .والقول الثاني أن الجميع من ولد إبليس إلا أنه جعل ولده قسمين فأرسل أحد القسمين إلى وسوسة الإنس. والقسم الثاني إلى وسوسة الجن فالفريقان شياطين الإنس والجن ومن الناس من قال القول الأول أولى لأن المقصود من الآية الشكاية من سفاهة الكفار الذين هم الأعداء وهم الشياطين ومنهم من يقول القول الثاني أولى لأن لفظ الآية يقتضي إضافة الشياطين إلى الإنس والجن والإضافة تقتضي المغايرة وعلى هذا التقدير فالشياطين نوع مغاير للجن وهم أولاد إبليس.

لسان العرب لابن منظور: (238/13، ط: دار صادر)
الشاطن: البعيد عن الحق، وفي الكلام مضاف محذوف تقديره كل ذي هوى، وقد روي كذلك۔۔۔والشيطان: معروف، وكل عات متمرد من الجن والإنس والدواب شيطان۔

ملفوظات حکیم الامت: (437/26،ط: ادارة تالیفات اشرفیة)

عمدۃ السلوک للشیخ سید زوّار حسین شاہ: (ص: 289، ط: زوار اکیدمی)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2165 Sep 19, 2021
nafs or / aur sheetan me / mein kia farq he / hey?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.