سوال:
سوال یہ ہے کہ ہماری پاکستانی حکومت ہندو، سکھ یا غیر مذھب کے عبادت خانے بناسکتی ہے یا نہیں؟
جواب: (1) واضح رہے کہ جزیرہ عرب سے باہر جہاں بھى مسلمانوں کى فتوحات کے نتیجے میں کوئى اسلامى ریاست قائم ہوئى ہے، وہاں کے مسلم خلفاء، امراء اور فقہاء امت رحمہم اللہ نے مکمل مذہبی رواداری کے اسلامى اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت کی اسلامى مملکت کے سیاسی، سماجى اور مذہبى مفادات، نیز صلح و جنگ کے رائج الوقت اخلاقى دائروں کے پیشِ نظر وہاں کى غیر مسلم آبادى کى مذہبى آزادى اور ان کى عبادت گاہوں سے متعلق درج ذیل تین اصول اختیار فرمائے ہیں:
1- جو علاقے امن و صلح کے معاہدے کے نتیجے میں اسلامی سلطنت کا حصہ بنے ہوں، اس میں معاہدے میں طے شدہ شرائط کى پابندى لازمى ہوگى، لہذا ان علاقوں میں غیر مسلموں کو نئی عبادت گاہیں بنانے کا حق حاصل ہوگا۔ نیز جو عبادت گاہیں پہلے سے موجود ہوں انہیں برقرار رکھا جائے گا، بلکہ اگر ان عبادت گاہوں کى مرمت کرنا چاہیں تو اس کى انہیں اجازت ہوگى۔
حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے غیر مسلموں کی عبادت گاہ کی تعمیر سے متعلق فرمایا ہے: پاکستان جیسے ملک میں جو صلح سے بنا ہے، وہ (غیر مسلم) ضرورت کے موقع پر نئی عبادت گاہ بھی بنا سکتے ہیں، لیکن حکومت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے خرچ پر مندر تعمیر کرے"۔
2- وہ علاقے جسے ابتداء ہى سے مسلمانوں نے ہى آباد کیا ہو تو ایسے شہر میں غیرمسلموں کو اپنى عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
3- جن علاقوں کے غیر مسلم باشندے صلح پر آمادہ نہ ہوں، بلکہ وہ مزاحمت اور جنگ کا راستہ اختیار کریں اور پھر میدانِ جنگ میں مسلمان ان کو شکست دے دیں، تو جنگى اصولوں کے پیشِ نظر ان غیر مسلموں کا اپنے علاقے پر کوئی حق نہیں ہوگا، ایسے علاقے میں بھى غیر مسلموں کو اپنى عبادت گاہوں کى تعمیر کى اجازت نہیں ہوگى۔
(2) جس طرح اسلامى ریاست کى ذمہ دارى ہے کہ وہ ریاست میں بسنے والے ہر مسلمان شہرى کے جان مال عزت وآبرو کی حفاظت کرے، بالکل اسی طرح اسلامى ریاست کى یہ بھی شرعى ذمہ دارى ہے کہ وہ اس ریاست میں عقد ذمہ اور معاہدے کے طور پر بسنے والے غیر مسلموں کے جان مال عزت وآبرو کی حفاظت کرے، اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے انہیں مذہبی آزادی بھی دی ہے، یہاں تک کہ ان کے مذہبی تہواروں میں دخل اندازی سے بھی منع کیا ہے اور ان کی قدیم عبادت گاہوں کو نقصان پہچانے کی اجازت نہیں دی ہے، (بشرطیکہ وہ اپنى مذہبى تعلمیات کى تبلیغ نہ کریں اور مذہبى رسومات کو اپںى عبادت گاہوں تک محدود رکھیں)، لیکن اس سب کے باوجود اسلامى ریاست کو اس بات کى اجازت نہیں ہے کہ وہ سرکارى خرچ پر غیر مسلموں کى عبادت گاہوں کو تعمیر کرے، ایسا کرنا گناہ اور شرک میں تعاون کرنے زمرے میں آئے گا جو کہ حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدة، الآیة: 2)
"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِo
أحكام القرآن للجصاص: (381/2، ط: دار الكتب العلمية)
"وقوله تعالى: {وتعاونوا على البر والتقوى} يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان طاعة لله تعالى; لأن البر هو طاعات الله. وقوله تعالى: {ولا تعاونوا على الأثم والعدوان} نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى".
الدر المختارمع رد المحتار: (کتاب الجهاد، باب المستامن، مطلب في أحکام الکنائس و البیع، 202/4، ط: سعيد)
"(ولا) يجوز أن (يحدث بيعة، ولا كنيسة ولا صومعة، ولا بيت نار، ولا مقبرة) ولا صنمًا حاوي (في دار الإسلام) ولو قرية في المختار، فتح".
"وفي الوهبانية: إنه الصحيح من المذهب الذي عليه المحققون إلى أن قال: فقد علم أنه لايحل الإفتاء بالإحداث في القرى لأحد من أهل زمامنا بعدما ذكرنا من التصحيح والاختيار للفتوى وأخذ عامة المشايخ ولايلتفت إلى فتوى من أفتى بما يخالف هذا، ولا يحل العمل به ولا الأخذ بفتواه، ويحجر عليه في الفتوى ويمنع لأن ذلك منه مجرد إتباع هوى النفس وهو حرام؛ لأنه ليس له قوة الترجيح، لو كان الكلام مطلقًا فكيف مع وجود النقل بالترجيح والفتوى فتنبه لذلك، والله الموفق".
رد المحتار: (کتاب الجهاد، مطلب في أحكام الكنائس و البيع، 203/4، ط: دار الفکر- بیروت)
"في الفتح: قيل الأمصار ثلاثة ما مصره المسلمون، كالكوفة والبصرة وبغداد وواسط، ولا يجوز فيه إحداث ذلك إجماعا وما فتحه المسلمون عنوة فهو كذلك، وما فتحوه صلحا فإن وقع على أن الأرض لهم جاز الإحداث وإلا فلا إلا إذا شرطوا الإحداث اه ملخصا وعليه فقوله: ولا يجوز أن يحدثوا مقيد بما إذا لم يقع الصلح على أن الأرض لهم أو على الإحداث، لكن ظاهر الرواية أنه لا استثناء فيه كما في البحر والنهر. قلت: لكن إذا صالحهم على أن الأرض لهم فلهم الإحداث إلا إذا صار مصرا للمسلمين بعد فإنهم يمنعون من الإحداث بعد ذلك، ثم لو تحول المسلمون من ذلك المصر إلا نفرا يسيرا فلهم الإحداث أيضا، فلو رجع المسلمون إليه لم يهدموا ما أحدث قبل عودهم كما في شرح السير الكبير، وكذا قوله وما فتح عنوة فهو كذلك ليس على إطلاقه أيضا بل هو فيما قسم بين الغانمين أو صار مصرا للمسلمين، فقد صرح في شرح السير بأنه لو ظهر على أرضهم وجعلهم ذمة لا يمنعون من إحداث كنيسة لأن المنع مختص بأمصار المسلمين التي تقام فيها الجمع والحدود، فلو صارت مصرا للمسلمين منعوا من الإحداث، ولا تترك لهم الكنائس القديمة أيضا كما لو قسمها بين الغانمين لكن لا تهدم، بل يجعلها مساكن لهم لأنها مملوكة لهم، بخلاف ما صالحهم عليها قبل الظهور عليهم، فإنه يترك لهم القديمة ويمنعهم من الإحداث بعدما صارت من أمصار المسلمين اه ملخصا. مطلب لو اختلفنا معهم في أنها صلحية أو عنوية فإن وجد أثر وإلا تركت بأيديهم [تتمة]
لو كانت لهم كنيسة في مصر فادعوا أنا صالحناهم على أرضهم، وقال المسلمون: بل فتحت عنوة وأراد منعهم من الصلاة فيها وجهل الحال لطول العهد سأل الإمام الفقهاء، وأصحاب الأخبار فإن وجد أثرا عمل به، فإن لم يجد أو اختلفت الآثار جعلها أرض صلح، وجعل القول فيها لأهلها، لأنها في أيديهم وهم متمسكون بالأصل وتمامه في شرح السير".
و فیه ایضاً: (کتاب الجهاد، مطلب في أحكام الكنائس و البيع، 205/4، ط: دار الفکر- بیروت)
"واتفقت مذاهب الأئمة الأربعة على أنهم يمنعون عن الإحداث كما بسطه الشرنبلالي بنقله نصوص أئمة المذاهب، ولايلزم من الإحداث أن يكون بناءً حادثًا؛ لأنه نص في شرح السير وغيره على أنه لو أرادوا أن يتخذوا بيتًا لهم معدا للسكنى كنيسة يجتمعون فيه يمنعون منه؛ لأن فيه معارضة للمسلمين وازدراء بالدين. اه.
أي لأنه زيادة معبد لهم عارضوا به معابد المسلمين، وهذه الكنيسة كذلك جعلوها معبدا لهم حادثا فما أفتى به ذلك المسكين خالف فيه إجماع المسلمين، وهذا كله مع قطع النظر عما قصدوه من عمارتها بأنقاض جديدة وزيادتهم فيها فإنها لو كانت كنيسة لهم يمنعون من ذلك بإجماع أئمة الدين أيضًا ولا شك أن من أفتاهم وساعدهم وقوى شوكتهم يخشى عليه سوء الخاتمة والعياذ بالله تعالى".
واللہ تعالى اعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص،کراچى