عنوان: "میں نے نبی کریم ﷺ کو سوائے تین موقعوں کے لوگوں کی گفتگو سے متعلق رخصت دیتے ہوئے نہیں سنا" حدیث کی تشریح (8446-No)

سوال: "ریاض الصالحین" کی درج ذیل حدیث کی تشریح سمجھادیں: "مسلم کی ایک روایت میں یہ زائد ہے کہ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو سوائے تین موقعوں کے لوگوں کی گفتگو سے متعلق رخصت دیتے ہوئے نہیں سنا: (۱) جنگ (۲) لوگوں پر صلح کرانے میں (۳) مرد کا اپنی بیوی سے اور بیوی کا اپنے خاوند سے بات کرنے میں۔(ریاض الصالحین)

جواب: حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں میں صلح کرائے اور اچھی بات کہے اور اچھی بات پہنچائے۔" ابن شہاب نے کہا: لوگ جو جھوٹی باتیں کرتے ہیں، میں نے ان میں سے تین کے سوا کسی بات کے بارے میں نہیں سنا کہ ان کی اجازت دی گئی ہے: جنگ اور جہاد میں، لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے اور خاوند کا اپنی بیوی سے (اسے راضی کرنے کی) بات اور عورت کی اپنے خاوند سے (اسے راضی کرنے کے لیے) بات۔
(مسلم شریف،حدیث نمبر: 2605)
حدیث کی تشریح:
واضح رہے کہ جھوٹ بولنا ہرصورت میں حرام ہے، البتہ شریعتِ مطہرہ نے ضرورت کے مواقع پر گول مول سی بات کہنے کی اجازت دی ہے، جس پر بظاہر جھوٹ کا گمان ہو سکے مگر اصلی مراد کے لحاظ سے وہ سچ ہو، اس کو "توریہ" کہتے ہیں، اور ایسے کلمات کے استعمال کی اجازت بھی عام طور پر نہیں بلکہ اس میں بھی صرف تین مقامات میں اس کی اجازت دی ہے۔
۱) وہ جھوٹ جس کا مقصد لوگوں کے درمیان صلح کرانا ہو، یعنی جھگڑنے والے دو افراد یا دو قبیلوں کے درمیان صلح کے لیے یوں کہے کہ آپ تو اس پر غصہ ہورہے ہیں اور وہ آپ کے لیے دعا کرتا ہے، جبکہ مراد یہ ہو کہ وہ عام مسلمانوں کے لیے دعا کرتا ہے اور اس میں یہ بندہ بھی شامل ہے۔
۲) دورانِ جنگ جھوٹ بولنا، وہ اس طرح کہ وہ ایسے ظاہر کرے کہ وہ بہت طاقت ور ہیں، اس سے دشمن کو دھوکہ لگے یا پھر یہ کہے کہ مقابل کا لشکر بہت زیادہ ہے اور انہیں بہت کمک (مدد) مل گئی ہے۔
۳) خاوند اور بیوی کا آپس میں جھوٹ بولنا، مثلاً وہ اس سے کہے تم مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو اور مجھے تمہاری جیسی عورت اچھی لگتی ہے یا اسی طرح کے اور الفاظ کہے، جن سے ان دونوں کے درمیان الفت و محبت پیدا ہو، اسی طرح بیوی کا بھی اپنے شوہر سے اس طرح کی باتیں کہنا جائز ہے۔ تاہم میاں بیوی کے درمیان جھوٹ کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ ایسا ہو جس سے الفت و محبت اور ان کی باہمی معاشرت کو دوام حاصل ہو۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جہاں تک شوہر کا اپنی بیوی سے اور بیوی کا اپنے شوہر سے جھوٹ بولنے کا تعلق ہے تو اس سے مراد وہ جھوٹ ہے جو اظہارِ محبت کے لیے بولا جائے یا کسی ایسی شے کا وعدہ کرتے ہوئے بولا جائے جس کا مہیا کرنا اس کے لیے لازمی نہ ہو، البتہ مرد یا عورت کا اپنے اوپر واجب ہونے والی ذمہ داریوں سے چھٹکارا پانے کے لیے جھوٹ بول کر دھوکہ دینا يا پھر شوہر يا بيوى كا ایک دوسرے کا حق غصب كرنے کے لیے جھوٹ بولنا بالاجماع حرام ہے۔
خلاصہ کلام :
حدیث شریف میں جن تین مواقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے، اس سے واضح الفاظ میں صاف جھوٹ بولنے کی اجازت دینا مراد نہیں ہے، بلکہ ان تین مواقع پر ایسی گول مول بات کہنے کی اجازت ہے، جو ظاہری اعتبار سے جھوٹ ہو، لیکن حقیقت میں وہ سچ ہو، اس کو "توریہ" کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح مسلم: (رقم الحدیث: 2605، 2011/4، ط: دار احياء التراث العربي)
حدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، أخبرني حميد بن عبد الرحمن بن عوف، أن أمه أم كلثوم بنت عقبة بن أبي معيط، وكانت من المهاجرات الأول، اللاتي بايعن النبي صلى الله عليه وسلم، أخبرته، أنها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو يقول: «ليس الكذاب الذي يصلح بين الناس، ويقول خيرا وينمي خيرا» قال ابن شهاب: ولم أسمع يرخص في شيء مما يقول الناس كذب إلا في ثلاث: الحرب، والإصلاح بين الناس، وحديث الرجل امرأته وحديث المرأة زوجها.

شرح النووي علی مسلم: (158/16، ط: دار احياء التراث العربي)
قال القاضي لا خلاف في جواز الكذب في هذه الصور واختلفوا في المراد بالكذب المباح فيها ماهو فقالت طائفة هو على إطلاقه وأجازوا قول ما لم يكن في هذه المواضع للمصلحة وقالوا الكذب المذموم ما فيه مضرة واحتجوا بقول إبراهيم صلى الله عليه وسلم بل فعله كبيرهم وإني سقيم وقوله إنها أختي وقول منادي يوسف صلى الله عليه وسلم أيتها العير إنكم لسارقون قالوا ولا خلاف أنه لو قصد ظالم قتل رجل هو عنده مختف وجب عليه الكذب في أنه لا يعلم أين هو وقال آخرون منهم الطبري لا يجوز الكذب في شئ أصلا قالوا وما جاء من الإباحة في هذا المراد به التورية واستعمال المعاريض لا صريح الكذب مثل أن يعد زوجته أن يحسن إليها ويكسوها كذا وينوي إن قدر الله ذلك وحاصله أن يأتي بكلمات محتملة يفهم المخاطب منها ما يطيب قلبه وإذا سعى في الإصلاح نقل عن هؤلاء إلى هؤلاء كلاما جميلا ومن هؤلاء إلى هؤلاء كذلك وورى وكذا في الحرب بأن يقول لعدوه مات إمامكم الأعظم وينوي إمامهم في الأزمان الماضية أو غدا يأتينا مدد أي طعام ونحوه هذا من المعاريض المباحة فكل هذا جائز وتأولوا قصة ابراهيم ويوسف وماجاء من هذا على المعاريض والله أعلم وأما كذبه لزوجته وكذبها له فالمراد به في إظهار الود والوعد بما لا يلزم ونحو ذلك فأما المخادعة في منع ما عليه أو عليها أو أخذ ماليس له أو لها فهو حرام بإجماع المسلمين والله اعلم.

فتح الباري لابن حجر العسقلاني: (300/5، ط: دار المعرفة)
قال الطبري ذهبت طائفة إلى جواز الكذب لقصد الإصلاح وقالوا إن الثلاث المذكورة كالمثال وقالوا الكذب المذموم إنما هو فيما فيه مضرة أو ما ليس فيه مصلحة وقال آخرون لا يجوز الكذب في شيء مطلقا وحملوا الكذب المراد هنا على التورية والتعريض كمن يقول للظالم دعوت لك أمس وهو يريد قوله اللهم اغفر للمسلمين ويعد امرأته بعطية شيء ويريد إن قدر الله ذلك وأن يظهر من نفسه قوة قلت وبالأول جزم الخطابي وغيره وبالثاني جزم المهلب والأصيلي وغيرهما ۔۔واتفقوا على أن المراد بالكذب في حق المرأة والرجل إنما هو فيما لا يسقط حقا عليه أو عليها أو أخذ ما ليس له أو لها وكذا في الحرب في غير التأمين واتفقوا على جواز الكذب عند الاضطرار كما لو قصد ظالم قتل رجل وهو مختف عنده فله أن ينفي كونه عنده ويحلف على ذلك ولا يأثم والله أعلم.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 160 Sep 22, 2021
teen muaqe / moqo per jhot bolne ki ijazat se mutaliq hadees shareef ki tehqeeq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.