سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! قرآن کریم سے نام رکھنے کے لیے حرف نکالنے کی شرعی حیثیت اور طریقہ بتادیجئے۔
کیا عقیقہ سات دن کے اندر کرنا فرض ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔
جواب: 1) قرآن مجید سے حروف نکال کر بچے کا نام رکھنے کا مروجہ طریقہ شرعاً ثابت نہیں ہے، لہذا اس سے بچنا چاہیے۔
نیز قرآن مجید کے الفاظ کے مطابق نام رکھنا بھی ضروری نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص قرآن مجید سے بچے کا نام رکھنا چاہے، تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ بچے کے لیے قرآن مجید میں موجود اسمائے حسنیٰ، انبیاء کرام یا اولیاء عظام کے مبارک ناموں میں سے کسی نام کا انتخاب کر لیا جائے، جیسے: عبداللہ، عبد الرحمن، محمد، ابراہیم، یوسف، لقمان، مریم وغیرہ۔
2) بچے کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا سنت (غیر موکدہ) یعنی مستحب کے حکم میں ہے، فرض یا واجب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2132، 1682/3، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ان احب اسمائکم الیٰ اللّٰہ عبداللّٰہ وعبد الرحمن۔
سنن ابي داؤد: (رقم الحدیث: 4950، 287/4، ط: المكتبة العصرية)
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تسموا بأسماء الأنبياء، وأحب الأسماء إلى الله عبد الله، وعبد الرحمن....الخ
المستدرک للحاکم: (کتاب الذبائح، رقم الحدیث: 7595، 266/4، ط: دار الكتب العلمية)
عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه".
إعلاء السنن: (باب العقیقة، 117/1، ط: ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیة)
أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی