سوال:
زید اور بکر دو دوست ہیں، زید کو کاروباری معاملات کے لیے کچھ رقم کی ضرورت تھی، لیکن اس کے پاس رقم نہیں تھی، مگر زمین موجود تھی، زید نے اپنے دوست بکر سے کہا کہ آپ کے پاس انویسٹر ہوتے ہیں، آپ کسی ایسے انویسٹر سے میری زمین کا سودا کرا دیجیے، جو اپنی رقم پر نفع کمانا چاہتا ہو، اور اسے زمین کی حاجت نہ ہو، تاکہ جب میرے مالی معاملات سیدھے ہوں، تو میں خود یہ زمین اس سے واپس خرید لوں، میں آپ کو بھی اس تمام سلسلے میں ایک مناسب کمیشن دے دونگا، تو بکر نے یوسف صاحب سے رابطہ کیا، جنہوں نے زید سے یہ زمین ایک کروڑ بیس لاکھ میں خرید لی اور اوریجنل کاغذات لے لیے قیمت ادا کردی، لیکن ٹرانسفر اپنے نام نہیں لیا، ایسا اس لیے کیا کہ ٹرانسفر کی فیس وغیرہ کی ادائیگی ہوتی ہے، اور کچھ عرصے بعد زید کو ہی بیچنی ہے، اس کے بعد یوسف صاحب نے احتیاطی طور پر کہ کوئی شرعی معاملہ نہ ہو، یہ زمین بکر کو بیچ دی، اور بکر نے یہ زمین واپس زید کو بیچ دی، اس سارے تبادلے میں اوریجنل کاغذات بھی نئے بننے والے مالکان کے پاس جاتے رہے، اور ٹرانسفر زید کے نام پر ہی رہا، ایک سال بعد زید نے ڈیڑھ کروڑ میں یہ زمین بکر سے خرید لی، اس دوران قبضے کی کیفیت یکساں تھی، تینوں میں سے کوئی بھی بغیر کسی روک ٹوک کے آجا سکتا تھا، البتہ اس دوران اس زمین پر چوکیداری کے معاملات کو زید ہی دیکھا کرتا تھا، اب تین سال گزرنے کے بعد زید نے کسی مفتی صاحب سے تذکرہ کیا، تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ آپ کا یہ عمل جائز نہیں تھا، براہ مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں بتائیے کہ کیا پہلے والا سودا درست تھا یا نہیں؟
اس معاملے کے درست نہ ہونے کی صورت میں سوال یہ ہے کہ یوسف صاحب نے حلال نفع کے لیے انویسٹمنٹ کی تھی، زید کی ضرورت پوری ہوگئی، لیکن یوسف صاحب کا نقصان ہو گیا، اس کا شریعت کی روشنی میں کیا حل ہے؟
جواب: اگر زمین بیچتے وقت یہ شرط نہیں لگائی گئی تھی کہ معاملات سیدھے ہونے پر کچھ عرصے بعد واپس اسی آدمی (زید) کو بیچنی ہے، تو پھر معاملہ درست ہوا۔
لیکن اگر بیچتے وقت واپسی کی شرط تھی، تو شرعی طور پر یہ معاملہ درست نہیں ہوا، ایسی صورت میں فریقین (یوسف صاحب اور زید) کے ذمے لازم تھا کہ اس سودے کو ختم کردیتے، لیکن یوسف صاحب نے آگے بکر کے ساتھ سودا کرلیا، تو بکر کی ملکیت اس میں ثابت ہوگئی، اور بکر کا منافع کے ساتھ اس کو بیچنا بھی درست ہوگیا۔
رہی بات یوسف صاحب کے نقصان کی تو واضح رہے کہ شرعی طور پر نقصان وہی ہے، جو حقیقی نقصان ہو، تاجروں کے عرف میں نفع نہ ہونے یا کم ہونے کو جو نقصان سمجھا جاتا ہے، شرعی لحاظ سے یہ نقصان نہیں ہے۔
اس لیے حقیقی نقصان نہ ہونے کی صورت میں یوسف صاحب کو مزید کچھ نہیں ملے گا، اگرچہ ان کو نفع نہیں ہوا، لیکن اگر نقصان سے مراد اگر کوئی اور چیز مراد ہے، تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ مسئلہ پوچھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقه البیوع: (516/1، ط: معارف القرآن)
القول الثالث: ان شرط الوفاء ان کان فی صلب العقد فانہ یفسد البیع ویصیر رھنا تجری علیہ جمیع احکام الرھن من انہ یحرم علی المشتری ان ینتفع بہ لانہ مرتھن فی الحقیقۃ. اما اذا کان صلب العقد خالیا من شرط الوفاء ثم وعد المشتری بان البائع کلما جاء بالثمن فانہ یبیع الیہ المبیع ببیع جدید فھو بیع جائز یحل للمشتری الانتفاع بالمبیع ویکون الوعد ملزما للمشتری .... وھذا ما اختارہ بعض مشایخنا فی شبہ القارۃ الھندیۃ للفتوی.
و فیه ایضا: (1071/2، ط: معارف القرآن)
اما المشتری فی مثل ھذہ البیوع الفاسدۃ فانہ یملک المبیع ملکا خبیثا ولا یحل لہ الانتفاع بہ، ویکرہ للآخرین شراؤ ذلک المبیع منہ. وان باعہ وربح فیہ لا یطیب لہ الربح ویجب ان یتصدق بہ. اما من اشتراہ منہ مع کراھۃ الشراء فقد ملکہ ملکا صحیحا ولیس علیہ التصدق بہ، ویجوز للآخرین التعامل معہ بشراء او بیع او قبول ھبۃ او اجابۃ دعوۃ.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی