سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص کا انتقال ہوا، ورثاء میں 2 بیٹیاں ، 2 بیویاں اور 3 بہنیں ہیں، تقسیم کاری کیسے ہوگی؟
جواب: مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو، تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو ایک سو چوالیس (144) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے دونوں بیویوں میں سے ہر ایک کو نو (9)، دو بیٹیوں میں سے ہر ایک کو اڑتالیس (48) اور تین بہنوں میں سے ہر ایک کو دس (10) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں، تو
ہر ایک بیوی کو % 6.25 فیصد
ہر ایک بیٹی کو % 33.33 فیصد
اور ہر ایک بہن کو % 6.94 فیصد ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایۃ: 11)
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ....الخ
و قوله تعالی: (النساء، الایۃ: 12)
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ.... الخ
الھندیۃ: (451/6، ط: دار الفکر)
وعصبة مع غيره وهي كل أنثى تصير عصبة مع أنثى أخرى كالأخوات لأب وأم أو لأب يصرن عصبة مع البنات أو بنات الابن، هكذا في محيط السرخسي مثاله بنت وأخت لأبوين وأخ أو إخوة لأب فالنصف للبنت والنصف الثاني للأخت ولا شيء للإخوة؛ لأنها لما صارت عصبة نزلت منزلة الأخ لأبوين
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی