سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میں نے ایک جگہ انویسٹمنٹ کی ہے، جن کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ ہم سے متعین چیز مثلاً گاڑی، موبائل وغیرہ کا مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ چیز ہمیں خرید کر دیں، اس کے بعد وہ خریدی ہوئی چیز ہم ان کو بیچ دیتے ہیں اور وہ آگے پھر مرابحہ کی بنیاد پر اس سے نفع کماتے ہیں اور ہمیں اس سے بیس فیصد ماہانہ نفع دیتے ہیں، جو رقم کی صورت میں چالیس ہزار متعین چلا آرہا ہے، اس میں نقصان ہمیشہ وہی برداشت کرتے ہیں اور یہ ایک سال کا ایگریمنٹ ہوتا ہے، ہم ایک سال سے پہلے اگررقم واپس لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں۔ شرعی لحاظ سے کیا یہ معاملہ درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: مذکورہ صورت میں آپ کا مطلوبہ چیز خرید کر انہیں فروخت کرنا خرید وفروخت کا معاملہ ہے٬ اس معاملہ میں چیز کی قیمت کو ماہانہ نفع (بیس فیصد )کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے٬ جوکہ شرعا درست نہیں ہے٬ کیونکہ خرید و فروخت کا معاملہ کرتے وقت ہی متعین طور پر قیمت کا طے کرنا شرعا ضروری ہے٬ اس وقت قیمت طے کئے بغیر ماہانہ حاصل ہونے والے نفع کی بنیاد پر قیمت کا فیصدی تناسب طے کرنے میں جہالت (ابہام) ہے۔
نیز اس صورت میں عین ممکن ہے کہ کسی مہینے اگر نفع نہ ہو٬ تو قیمت بھی نہیں ملے گی٬ لہذا متعین طور پر قیمت طے نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ معاملہ شرعا جائز نہیں ہے۔
سوال میں آپ نے جو لکھا ہے کہ "ہم ایک سال سے پہلے اگر رقم واپس لینا چاہیں، تو لے سکتے ہیں" اس عبارت کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا کہ کون سی رقم کی بات ہو رہی ہے؟ اس کو واضح کرکے دوبارہ سوال پوچھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (281/5، ط: دار الکتاب الاسلامی)
وأما شرائط الصحة ....ومنہا: أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فالمجهول جهالة مفضية إليها غير صحيح .
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی