سوال:
ایک ساتھی کسی فیکٹری میں سپروائزر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، مالکان ان کو کہتے ہیں کہ آپ پڑوسی کے گھر چکر لگالیں اور اس کی زمین کا مالکان کی طرف سے سودا کرلیں، اور وہ سودا ہوجائے، تو کیا یہ سپروائزر بروکری کے طور پر کمیشن لے سکتا ہے؟
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت کے مطابق یہ شخص بظاہر کمپنی مالکان کا وکیل بن کر سودا کر رہا ہے٬ تو ایسی صورت میں جس سے زمین کی خریداری کر رہا ہو٬ اس سے بروکری یا کمیشن نہیں لے سکتا٬ کیونکہ وہ اس کا وکیل نہیں ہے٬ البتہ اپنے موکل (کمپنی مالکان) سے اگر باہمی رضامندی کے ساتھ شروع میں کمیشن طے کرکے لینا چاہے٬ تو لے سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (560/4، ط: دار الفکر)
وأما الدلال فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا فأجرتہ علی البائع، وإن سعی بینہما وباع المالک بنفسہ یعتبر العرف، وتمامہ فی شرح الوہبانیة اھ...
قولہ: فأجرتہ علی البائع: ولیس لہ أخذ شیء من المشتری لأنہ ہو العاقد حقیقة، شرح الوہبانیة، وظاہرہ أنہ لا یعتبر العرف ہنا لأنہ لا وجہ لہ، قولہ: یعتبر العرف: فتجب الدلالة علی البائع أو المشتری أو علیہما بحسب العرف جامع الفصولین اھ
درر الحكام شرح مجلة الأحكام: (272/1، ط: دار الجیل)
"مصارف الدلالة :- إذا باع الدلال مالاً بإذن صاحبه تؤخذ أجرة الدلالة من البائع ولا يعود البائع بشيء من ذلك على المشتري لأنه العاقد حقيقةً، وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له، أما إذا كان الدلال مشى بين البائع والمشتري ووفق بينهما ثم باع صاحب المال ماله ينظر فإن كان مجرى العرف والعادة أن تؤخذ أجرة الدلال جميعها من البائع أخذت منه، أو من المشتري أخذت منه، أو من الإثنين أخذت منهما
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی