سوال:
السلام علکیم، حضرت ! ایک مسئلہ پوچھنا ہے، اگر ایک بندے کے پاس 50 لاکھ کی پراپرٹی ہو اور وہ اپنے بچوں میں تقسم کر نا چاہتا ہو، تو کس طرح کرے گا؟ بچوں میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔
جواب: اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو جائیداد میں سے کچھ دینا یا تقسیم کرنا چاہے تو یہ ہبہ کہلاتا ہے، اور ''ہبہ'' کے لیے ضروری شرط یہ ہے کہ صرف زبانی طور پر کہنا نہ پایا جائے، بلکہ عملی طور پر موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا گیا ہے) کا حصہ متعین کر کے اس کو مکمل قبضہ دے دیا جائے، اگر جائیداد صرف زبانی طور پر ہبہ کی جائے، اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار نہ دیا جائے، تو وہ جائیداد بدستور دینے والے کی ملکیت میں رہتی ہے۔
زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد میں سے اپنے لیے اور اپنی بیوی کے لیے جتنا چاہے رکھ لے، تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، یا وراثت کے شرعی حصے کے مطابق بیوی کو آٹھواں حصہ دے کر بقیہ جائیداد اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے، یا کم از کم جتنا بیٹی کو دے، اس سے دوگنا بیٹے کو دے، نہ کسی کو محروم کرے، اور نہ ہی بلا وجہ کمی بیشی کرے، البتہ اگر وہ اولاد میں سے کسی کو معقول وجہ (مثلاً: اولاد میں سے کسی کی مالی حالت کمزور ہونے، زیادہ خدمت گزار ہونے، علم دین میں مشغول ہونے، یا کسی اور فضیلت کی وجہ) سے زیادہ دیتا ہے، اور اس سے دوسرے بچوں کو محروم کرنا یا نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو، تو شرعاً وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مصنف عبد الرزاق: (باب الہبات، رقم الحدیث: 16529، 107/9، ط: المجلس العلمي، الهند)
عن إبراہیم قال: الہبۃ لا تجوز حتی تقبض، والصدقۃ تجوز قبل أن تقبض۔
مشکوٰۃ المصابیح: (باب العطایا، 261/1، ط: قدیمی)
''وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔
الدر المختار: (569/4، ط: سعید)
وتتم الہبۃ بالقبض الکامل۔
رد المحتار: (444/4، ط: سعید)
" أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة: أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية، ولو كنت مؤثراً أحداً لآثرت النساء على الرجال». رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم». فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى. وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا: يكون آثماً في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلاتنصرف الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لايعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اه".
الفتاویٰ التاتارخانیۃ: (463/14، ط: رشیدیۃ)
وعلی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطی من أولاده من کان متأدباً".
کذا فی فتاوٰی دار العلوم دیوبند: رقم الفتوی: 267-209/H=2/1440
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی