سوال:
السلام علیکم
حضرت ! بچہ کی پیدائش کے بعد دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت دی جانی چاہیے، اگر غلطی سے بائیں میں اذان اور دائیں میں اقامت کہہ دی، تو کیا کیا جائے؟ اذان کون سی ہونی چاہیے، فجروالی یا کوئی بھی؟
جواب: نومولود کے کان میں اذان دینے کا طریقہ یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو نہلانے کے بعد بچے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھائیں اور قبلہ رُخ ہوکر پہلے بچے کے دائیں کان میں اذان اور پھر بائیں کان میں اقامت کہیں ۔ حي علی الصلاة اور حي علی الفلاح کہتے ہوئے دائیں بائیں چہرہ بھی پھیریں، البتہ دورانِ اذان کانوں میں انگلیاں ڈالنے کی ضرورت نہیں۔
واضح رہے کہ نومولود کے کان میں عام اذان دی جائے گی، الصلوة خير من النوم کے الفاظ نہیں کہے جائینگے.
حضرت عبیداللہ بن ابی رافع اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ ﷺکو حسن بن علی کی ولادت کے وقت ان کے کان میں اذان دیتے ہوئے دیکھا جس طرح نماز میں اذان دی جاتی ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو نقل فرماکر لکھتے ہیں:یہ حدیث صحیح ہے اور اسی پر عمل کیا جاتا ہے۔یہی روایت سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب المولود یؤذن فی اذنہ، (2/355) (ط: مکتبہ رحمانیہ لاہور) میں بھی موجود ہے۔
مظاہر حق شرح مشکوۃ المصابیح میں علامہ قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:'' اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچہ کی پیدائش کے بعد اس کے کان میں اذان دینا سنت ہے ۔ مسند ابویعلی موصلی میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بطریق مرفوع( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ) نقل کیا ہے کہ: " جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کے دائیں کان میں اذان دے اور بائیں کان میں تکبیر کہے ، تو اس کو ام الصبیان سے ضرر نہیں پہنچے گا''
بائیں کان میں اذان اور دائیں کان میں اقامت دینا خلافِ سنت ہے، البتہ نفس سنت ( نومولود کے کان میں اذان دینا) ادا ہوگئی، ہاں ! اگر اعادہ کرلیا جائےتو بہترہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مرقاة المفاتيح: (2691/7، ط: دار الفکر)
"وعن أبي رافع -رضي الله عنه- قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن في أذن الحسن بن علي - رضي الله عنهما - حين ولدته فاطمة بالصلاة» . رواه الترمذي، وأبو داود. وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح".
(بالصلاة) . أي بأذانها وهو متعلق بأذن، والمعنى أذن بمثل أذان الصلاة وهذا يدل على سنية الأذان في أذن المولود وفي شرح السنة: روي أن عمر بن عبد العزيز - رضي الله عنه - كان يؤذن في اليمنى ويقيم في اليسرى إذا ولد الصبي. قلت: قد جاء في مسند أبي يعلى الموصلي، عن الحسين - رضي الله عنه - مرفوعاً: «من ولد له ولد فأذن في أذنه اليمنى وأقام في أذنه اليسرى لم تضره أم الصبيان»". كذا في الجامع الصغير للسيوطي رحمه الله. قال النووي في الروضة: ويستحب أن يقول في أذنه: "{وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم} [آل عمران: 36]". قال الطيبي: ولعل مناسبة الآية بالأذان أن الأذان أيضاً يطرد الشيطان؛ لقوله صلى الله عليه وسلم:" «إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لايسمع التأذين»". وذكر الأذان والتسمية في باب العقيقة وارد على سبيل الاستطراد اه. والأظهر أن حكمة الأذان في الأذن أنه يطرق سمعه أول وهلة ذكر الله تعالى على وجه الدعاء إلى الإيمان والصلاة التي هي أم الأركان (رواه الترمذي، وأبو داود، وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح) ".
تقریرات الرافعی علی رد المحتار: (45/1، ط: سعید)
قال السندي رحمه الله تعالى : فيرفع المولود عند ولادة على یديه مستقبل القبلة، ويؤذن في أذنه اليمنى، ويقيم في اليسرى.
رد المحتار: (387/1، ط: دار الفکر)
(ويلتفت فيه) وكذا فيها مطلقا، وقيل إن المحل متسعا (يمينا ويسارا) فقط؛ لئلا يستدبر القبلة (بصلاة وفلاح) ولو وحده أو لمولود؛ لأنه سنة الأذان مطلقا
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی