resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: "قرآن کریم اپنے پڑھنے والی کی میت کے سرہانے کھڑا رہتا ہے" حدیث کی تحقیق اور حکم(8605-No)

سوال: مندرجہ ذیل حدیث کا حکم بیان فرمادیں: تم میں سے جب کوئی شخص رات كو بيدار ہو تو بلند آواز سے قرأت کرے، کیونکہ وہ اپنى تلاوت سے سرکش شیاطین اور فاسق جنات بھگا رہا ہوتا ہے، فضا اور گھر میں رہنے والے فرشتے اس کی نماز کے ساتھ نماز پڑھتے اور اس کی قرأت کو غور سے سنتے ہیں اور گزرنے والى رات آئندہ آنے والى رات کو یہ کہتے ہوئے وصیت کر کے جاتى ہے کہ تو بھى اس (قرآن پڑھنے والے) کو رات کى اسى گھڑى میں بیدار کرنا اور اس پر ہلکى رہنا، چنانچہ جب اس کی وفات کا وقت ہوتا ہے تو قرآن کریم آتا ہے اور جب تک اس کے گھر والے اسےغسل دے رہے ہوتے ہیں، قرآن کریم اس شخص کے سرہانے کھڑا رہتا ہے، جیسے ہی گھر والے اس کے غسل وکفن سے فارغ ہوتے ہیں تو قرآن کریم آتا ہے اور اس شخص کے کفن اور سینے كے درمیان جاگزیں ہوجاتا ہے، پھر جب اسے دفن کیا جاتا ہے اور منکر نکیر (دو خاص فرشتوں کے نام) اس کے پاس آتے ہیں تو قرآن کریم نکل کر میت اور ان فرشتوں کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، وہ فرشتے قرآن كريم سے کہتے ہیں: ہمارے سامنے سے ہٹ جاؤ، تاکہ ہم اس سے سوال و جواب کر سکیں تو قرآن کریم جواب میں کہتا ہے: نہیں! بخدا میں اس سے اس وقت تک نہیں ہٹوں گا، جب تک ميں اسے جنت میں نہ داخل کرادوں اور اگر تمہیں اس شخص کے بارے میں اللہ تعالى کى طرف سے کوئی حکم دیا گیا ہے تو تم اس حکم کو پورا کر گزرو، پھر قرآن كريم اس میت کی طرف دیکھ کر کہتا ہے : کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ تو وہ کہتا ہے: نہیں، تب وہ قرآن اس سے کہتا ہے: میں وہى قرآن تو ہوں، جو تجھے رات كو جگائے رکھتا تھا (تہجد میں بیدار ہو کر تم میرى تلاوت کیا کرتے تھے) اور تمہیں دن بھر پیاسا رکھتا تھا اور تجھے تیرى شہوت سے روکے رکھتا تھا اور تیرے کانوں اور تیری آنکھوں کو (غلط کاموں سے) روکتا تھا، سو تو مجھے دوستوں میں سچا دوست اور بھائیوں میں سچا بھائی پائے گا، تجھے خوشخبرى ہو کہ منکر نکیر کے سوال و جواب کے بعد تمہیں کوئى غم اور پریشانى نہیں ہوگى، پھر قرآن کریم اوپر اللہ تعالی كى طرف جائے گا اور اللہ تعالى سے اس کے لیے بستر اور چادر مانگے گا تو الله تعالى اس کے لیے بستر، چادر، جنت کے نور کا ايک چراغ اور جنت کی یاسمین (چنبیلی) عنايت كيے جانے کا فرشتوں كو حكم فرمائیں گے، چنانچہ حکم کى تعمیل میں ایک ہزار آسمانی مقرب فرشتے ان چیزوں کو اٹھا کر لائیں گے، ایسے میں قرآن کریم ان فرشتوں سے پہلے اس ميت كے پاس پہنچ جائے گا اور اس سے کہے گا: تجھے میرے یہاں سے جانے کے بعد كوئى گھبراہٹ تو نہیں ہوئی؟(میں یہاں سے جانے کے بعد) مسلسل اللہ تعالى سے تیرے بارے میں سفارش کرتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے تیرے لیے بستر، چادر اور جنت کے نور کا چراغ اور جنت کی یاسمین (چنبیلی) عنايت كيے جانے کا حکم دے دیا، پھر فرشتے اس ميت کو اوپر اٹھاتے ہیں اور اس كے لیے بستر بچھاتے ہیں اور اوڑھنى (چادر) میت کی پاؤں کی جانب رکھ دیتے ہیں اور یاسمین (چنبیلی) اس کے سینے کے پاس رکھ دیتے ہیں، پھر اس ميت کو دائیں کروٹ پر لٹاتے ہیں اور وہ فرشتے اس کے پاس چلے جاتے ہیں، یہ مردہ ان فرشتوں کو جاتا ہوا برابر دیکھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ آسمان میں گم ہو جاتے ہیں، پھر قرآن کریم میت کے لیے اوپر جاتا ہے تو قبر کو قبلے کى جانب سے پانچ سو سال کی مسافت کے برابر کشادہ کردیا جاتا ہے یا جتنا اللہ تعالى کشادہ فرمانا چاہیں، اتنى کشادہ کر دى جاتى ہے، پھرقرآن کریم اس یاسمین ( چنبیلی) كو اٹھا کر اس میت کے ناک کے نتھنوں کے پاس رکھ دیتا ہے، (تاکہ مسلسل وہ یاسمین کى خوشبو سے محظوظ ہوتا رہے)، پھر وہ قرآن کریم اس میت کے گھر والوں کے پاس ہر روز ایک یا دو دفعہ جاتا ہے اور ان کی خیر خبر اس میت کے پاس لاتا ہے اور اس کے گھر والوں کے لیے بھلائی کی دعا کرتا رہتا ہے، اگر اس میت کى اولاد میں کوئى قرآن کریم سیکھ ليتا ہے، تو قرآن كريم آكر اس ميت كو اس بات کی خوشخبری سناتا ہے اور اگر اس میت کے پسماندگان برے ہوں، تب بھى روزانہ ایک یا دو مرتبہ قرآن کریم ان کے پاس آکر ان کے حال پر کڑھتا اور روتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت کے صور پھونکے جانے تک جارى رہتا ہے۔

جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت اگرچہ ضعیف ہے ، البتہ اس روايت كا تعلق فضائل كے باب سے ہے اور فضائل كے باب میں اس قسم کی روایت قابل قبول ہوتی ہے،نیز حضرت معاذ بن جبل سے مروی روایت اس حدیث کا شاہد ہے، جس کی وجہ سے اس روایت کو تقویت مل جاتی ہے اور اس کا ضعف کم ہوجاتا ہے، لہذا اس روایت کو بیان کرنا درست ہے۔ اس روایت کا ترجمہ،تخریج اور اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ: تم میں سے جب کوئی شخص رات كو بيدار ہو، تو بلند آواز سے قرأت کرے، کیونکہ وہ اپنى تلاوت سے سرکش شیاطین اور فاسق جنات بھگا رہا ہوتا ہے، فضا اور گھر میں رہنے والے فرشتے اس کی نماز کے ساتھ نماز پڑھتے اور اس کی قرأت کو غور سے سنتے ہیں اور گزرنے والى رات آئندہ آنے والى رات کو یہ کہتے ہوئے وصیت کر کے جاتى ہے کہ تو بھى اس (قرآن پڑھنے والے) کو رات کى اسى گھڑى میں بیدار کرنا اور اس پر ہلکى رہنا، چنانچہ جب اس کی وفات کا وقت ہوتا ہے، تو قرآن کریم آتا ہے اور جب تک اس کے گھر والے اسےغسل دے رہے ہوتے ہیں، قرآن کریم اس شخص کے سرہانے کھڑا رہتا ہے، جیسے ہی گھر والے اس کے غسل وکفن سے فارغ ہوتے ہیں، تو قرآن کریم آتا ہے اور اس شخص کےکفن اور سینے كے درمیان جاگزیں ہوجاتا ہے، پھرجب اسے دفن کیا جاتا ہے اور منکر نکیر (دو خاص فرشتوں کے نام) اس کے پاس آتے ہیں، تو قرآن کریم نکل کر میت اور ان فرشتوں کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، وہ فرشتے قرآن كريم سے کہتے ہیں: ہمارے سامنے سے ہٹ جاؤ، تاکہ ہم اس سے سوال و جواب کر سکیں، تو قرآن کریم جواب میں کہتا ہے:نہیں ! بخدا میں اس سے اس وقت تک نہیں ہٹوں گا، جب تک ميں اسے جنت میں نہ داخل کرادوں اور اگر تمہیں اس شخص کے بارے میں اللہ تعالى کى طرف سے کوئی حکم دیا گیا ہے، تو تم اس حکم کو پورا کر گزرو، پھر قرآن كريم اس میت کی طرف دیکھ کر کہتا ہے : کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ تو وہ کہتا ہے: نہیں، تب وہ قرآن اس سے کہتا ہے: میں وہى قرآن تو ہوں، جو تجھے رات كو جگائے رکھتا تھا(تہجد میں بیدار ہو کر تم میرى تلاوت کیا کرتے تھے) اور تمہیں دن بھر پیاسا رکھتا تھا اور تجھے تیرى شہوت سے روکے رکھتا تھا اور تیرے کانوں اور تیری آنکھوں کو (غلط کاموں سے) روکتا تھا، سو تو مجھے دوستوں میں سچا دوست اور بھائیوں میں سچا بھائی پائے گا، تجھے خوشخبرى ہو کہ منکر نکیر کے سوال و جواب کے بعد تمہیں کوئى غم اور پریشانى نہیں ہوگى، پھر قرآن کریم اوپر اللہ تعالی كى طرف جائے گا اور اللہ تعالى سے اس کے لیے بستر اور چادر مانگے گا، تو الله تعالى اس کے لیے بستر، چادر، جنت کے نور کا ايک چراغ اور جنت کی یاسمین (چنبیلی) عنايت كيے جانے کا فرشتوں كو حكم فرمائیں گے، چنانچہ حکم کى تعمیل میں ایک ہزار آسمانی مقرب فرشتے ان چیزوں کو اٹھا کر لائیں گے، ایسے میں قرآن کریم ان فرشتوں سے پہلے اس ميت كے پاس پہنچ جائے گا اور اس سے کہے گا: تجھے میرے یہاں سے جانے کے بعد كوئى گھبراہٹ تو نہیں ہوئی؟(میں یہاں سے جانے کے بعد) مسلسل اللہ تعالى سے تیرے بارے میں سفارش کرتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے تیرے لیے بستر، چادر اور جنت کے نور کا چراغ اور جنت کی یاسمین (چنبیلی) عنايت كيے جانے کا حکم دے دیا، پھر فرشتے اس ميت کو اوپر اٹھاتے ہیں اور اس كے لیے بستر بچھاتے ہیں اور اوڑھنى( چادر) میت کی پاؤں کی جانب رکھ دیتے ہیں اور یاسمین (چنبیلی) اس کے سینے کے پاس رکھ دیتے ہیں، پھر اس ميت کو دائیں کروٹ پر لٹاتے ہیں اور وہ فرشتے اس کے پاس چلے جاتے ہیں، یہ مردہ ان فرشتوں کو جاتا ہوا برابر دیکھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ آسمان میں گم ہو جاتے ہیں، پھر قرآن کریم میت کے لیے اوپر جاتا ہے تو قبر کے قبلے کى جانب کو پانچ سو سال کی مسافت کے برابر کشادہ کردیا جاتا ہے یا جتنا اللہ تعالى کشادہ فرمانا چاہیں، اتنى کشادہ کر دى جاتى ہے، پھرقرآن کریم اس یاسمین ( چنبیلی) كو اٹھا کر اس میت کے ناک کے نتھنوں کے پاس رکھ دیتا ہے، (تاکہ مسلسل وہ یاسمین کى خوشبو سے محظوظ ہوتا رہے)، پھر وہ قرآن کریم اس میت کے گھر والوں کے پاس ہر روز ایک یا دو دفعہ جاتا ہے اور ان کی خیر خبر اس میت کے پاس لاتا ہے اور اس کے گھر والوں کے لیے بھلائی کی دعا کرتا رہتا ہے، اگر اس میت کى اولاد میں کوئى قرآن کریم سیکھ ليتا ہے تو قرآن كريم آكر اس ميت كو اس بات کی خوشخبری سناتا ہے اور اگر اس میت کے پسماندگان برے ہوں، تب بھى روزانہ ایک یا دو مرتبہ قرآن کریم، ان کے پاس آکر ان کے حال پر کڑھتا اور روتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت کے صور پھونکے جانے تک جارى رہتا ہے۔(کتاب التھجد لابن ابی الدنیا، حدیث نمبر:3۰،ط: دار أطلس الخضراء)(۱)
تخریج الحدیث :
۱۔ا س حدیث کو علامہ ابن ابی الدنیا نے كتاب التهجد (38/2)، رقم الحدیث:3۰،ط: دار أطلس الخضراء) میں ذکر کیا ہے
۲۔امام ابن نصر المَرْوَزِي نے’’قیام اللیل‘‘ (141، ط: حديث أكادمی) میں ذکر کیا ہے
۳۔حافظ ا بن الضريس (م 294 ھ)نے’’ فضائل القرآن‘‘ (65)، رقم الحدیث: 115، ط: دار الفکر) میں ذکر کیا ہے
۴۔علامہ عقیلی (م322ھ) ’’ الضعفاء‘‘ (13/2)، رقم الحدیث: 468، ط: دار التأصيل) میں ذکر کیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
علامہ ابن الجوزی(م 597ھ) نے اس حدیث کے بارے میں امام عقیلی ؒ کا کلام نقل کرنے کے بعد فرمایا:اس حدیث کی نسبت جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف کرنا صحیح نہیں ہے، اس میں روای’’داؤد بن راشدالطفاوي‘‘ متہم ہےاور ایک روای ’’الکدیمی‘‘وضّاع یعنی روایات گھڑنے والاہے، لیکن علامہ سیوطی ؒ (م 911ھ)نے ’’ اللآلىء المصنوعة ‘‘میں علامہ ابن جوزی ؒ پر رد کرتے ہوئے فرمایا: ’’الکدیمی" حديث گھڑنے کے الزام سے برى ہے اور اس روایت کو مسند حارث، کتاب التہجد لأبن أبی الدنیا، فضائل القرآن لأبن الضریس اور کتاب الصلوۃ لأبن نصر میں ’’الکدیمی‘‘کے طریق کے علاوہ ’’داؤد بن راشدالطفاوي‘‘ سے نقل کیا گیا ہے۔
علامہ ابن عراق الكنانیؒ (م 963ھ)نے فرمایا: روای’’داؤد بن راشدالطفاوي‘‘ سے امام أبوداؤد اور امام نسائی نے حدیث نقل کی ہے اور ابن حبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ قرار دیا ہے اور حافظ ابن حجرؒ نے انہیں اس طبقے میں شمار کیا ہے، جن کے بارے میں کوئی ایسی قابلِ گرفت بات ثابت نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان کی روایت کو ترک کیاجائے۔(۳) علامہ ابن حجر عسقلانی (م 852ھ)نے اس روایت کو حدیث معاذ کے شاہد کے طورپر ذکر کیا ہے۔
اس ساری تفصیل سے واضح ہے کہ مذکورہ روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن چونکہ اس روایت کا تعلق فضائل سے ہے اور حدیث معاذبطورشاہد موجود ہونے کی وجہ سے اس روایت کو تقویت مل جاتی ہے، لہذا سوال میں ذکرکردہ روایت بیان کرنے کی گنجائش ہے۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخریج الحدیث:

(۱)كتاب التهجدلا بن أبي الدنيا: (38/2)، رقم الحدیث: 30، ط: دار أطلس الخضراء)
عن عبادة بن الصامت، قال: إذا قام أحدكم من الليل, فليجهر بقراءته, فإنه يطرد بجهر قراءته مردة الشياطين، وفتاني الجن، وإن الملائكة الذين هم في الهواء, وسكان الدار يستمعون إلى قراءته، ويصلون بصلاته، فإذا مضت عنه الليلة, أوصت به الليلة المستأنفة فتقول: نبهيه لساعته، وكوني عليه خفيفة, فإذا حضرته الوفاة جاء القرآن, فوقف عند رأسه وهم يغسلونه, فإذا فرغوا منه, دخل القرآن حتى صار بين صدره وكفنه, فإذا وضع في حفرته وجاء منكر ونكير, خرج القرآن حتى صار بينه وبينهما, فيقولان: إليك عنا, فإنا نريد أن نسأله, فيقول: ما أنا بمفارقه.
قال أبو عبد الرحمن: وكان في كتاب معاوية بن حماد: إلي حتى أدخله الجنة، فإن كنتما أمرتما فيه بشيء فشأنكما، ثم ينظر, فيقول: هل تعرفني؟ فيقول: لا، فيقول: أنا القرآن الذي كنت أسهر ليلك, وأظمئ نهارك، وأمنعك شهوتك, وسمعك, وبصرك، فستجدني اليوم من الأخلاء خليل صدق، ومن الإخوان أخا صدق, فأبشر فما عليك بعد مسألة منكر ونكير من هم، ولا حزن, ثم يخرجان من عنده, فيصعد القرآن إلى ربه, فيسأله له دثارا, وفراشا, ونورا من الجنة، فيؤمر له بقنديل وفراش من نور الجنة، وياسمين من ياسمين الجنة، فيحمله ألف ملك من مقربي سماء الدنيا، فيسبقهم القرآن إليه، فيقول: هل استوحشت بعدي؟ فإني لم أزل بربك حتى أمر لك بفراش ودثار, ونور من نور الجنة، فيدخل عليه الملائكة, فيحملونه ويفرشون له ذلك الفراش, ويضعون الدثار تحت رجليه, والياسمين عند صدره، ثم يحملونه حتى يضعوه على شقه الأيمن، ثم يصعدون عنه, فيستلقي عليه, فلا يزال ينظر إليهم حتى يلجوا في السماء، ثم يدفع القرآن في قبلة القبر, فيتسع عليه ما شاء الله.
قال أبو عبد الرحمن: وكان في كتاب معاوية: فيتسع عليه مسيرة أربعمئة عام، ثم يحمل الياسمين من عند صدره, فيضعه عند أنفه, فيشمه غضا كما جيء به, إلى أن ينفخ في الصور، ثم يأتي أهله كل يوم مرة, أو مرتين فيأتيه بخبرهم, فيدعو لهم بالخير والإقبال، فإن تعلم أحد من ولده القرآن بشره بذلك، وإن كان عقبه عقب سوء أتى الدار غدوة وعشية، فبكى عليه حتى ينفخ في الصور, أو كما قال.
أخرجہ الحارث فی مسندہ کما فی قال الھیثمی فی بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث: (736/2،(730، )
و ابن نصر المَرْوَزِي فی قیام اللیل: (141)وا بن الضريس فی فضائل القرآن: (65)( 115)و العقیلی فی الضعفاء: (13/2)(468)

(۲)تنزيه الشريعة المرفوعة لابن عراق الكناني: (292/1)، ط: دار الکتب العلمیۃ)
(أبو بكر الأنباري) في كتاب الوقف والابتداء، من حديث عبادة بن الصامت ولا يصح، فيه الكديمي. وداود بن راشد الطفاوي. (تعقب) بأن الكديمي برئ منه. فقد أخرجه الحارث في مسنده، وابن أبي الدنيا في التهجد، وابن الضريس في فضائل القرآن، وابن نصر في كتاب الصلاة، كلهم من حديث داود من غير طريق الكديمي. (قلت) وداود أخرج له أبو داود والنسائي، ووثقه ابن حبان وأدخله الحافظ بن حجر في التقريب في طبقة من لم يثبت فيه ما يترك حديث لأجله والله أعلم، وله شاهد من حديث معاذ بن جبل وفيه انقطاع، قال البزار خالد لم يسمع من معاذ.
وسكت عليه البوصيري كما في الإتحاف : ( 331/6)، رقم الحدیث: 5956)

وذکرہ العلامۃ ابن حجر العسقلاني فی المطالب العَاليَة:(402/14)، رقم الحدیث: 3500) لم یتکلم علیہ.
(۳) وقال ابن حجرالعسقلاني في ’’نتائج الافکار‘‘(20/2) وفيه مع انقطاعه نصر بن عبد الله ما عرفته، وبقية رجاله ثقات.ووجدت له شاهداً من حديث عبادة بن الصامت أخرجه محمد بن نصر المروزي في كتاب ((قيام الليل)) لكنه موقوف على عبادة.

(۴)شاھد الحدیث:
وللحديث شاهد من حديث معاذ رضي الله عنه مرفوع.
أخرجه البزّار كما في كشف الأستار: (341/1)، رقم الحدیث: 712، ط: مؤسسة الرسالة )
، عن معاذ بن جبل، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى منكم من الليل فليجهر بقراءته۔۔۔الخ بنحوہ
قال البزار: خالد بن معدان لم يسمع من معاذ، وإنما ذكرناه لأنا لا نحفظه عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا من هذا الوجه۔
وذکرہ المنذری بصیغۃ ’’التمریض ‘‘ فی الترغیب والترہیب(243/1)، رقم الحدیث: 923، ط: دار الکتب العلمیۃ) وقال الھیثمی فی مجمع الزوائد (254/2)، رقم الحدیث: 3531، ط: مكتبة القدسي) قلت: وفيه من لم أجد من ترجمه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

quran kareem ka mayyat ke / key sirhane khubsurat aadmi ki shakal me / mein aane se / sey mutalliq hadees ki tehqeeq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees