عنوان: "اس شخص کا وضو نہیں، جس نے وضو کے شروع میں بسم الله  نہیں کہا" حدیث کی وضاحت (8675-No)

سوال: ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس کا وضو نہیں، اور اس شخص کا وضو نہیں جس نے وضو کے شروع میں بسم الله نہیں کہا۔(سنن ابوداؤد، کتاب الطھارۃ)
کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ میں اکثر وضو کرتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھتا تو کیا میرا وضو اور نماز نہیں ہوتی ہے؟ براہ کرم وضاحت فرمادیں۔

جواب: جی ہاں! سوال میں ذکر کردہ روایت سنن ابی داؤد اور سنن ترمذی وغیرہ میں موجود ہے۔
واضح رہے کہ وضو کی ابتدا میں احناف کے نزدیک تسمیہ (بسم اللہ) پڑھنا مستحب ہے، جبکہ دیگر ائمہ ثلاثہ (امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) سے بسم اللہ کے سنت یا مستحب ہونے کے دونوں اقوال منقول ہیں، اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کے نزدیک بھی وضو کی ابتدا بسم اللہ سے کرنا لازمی اور ضروری نہیں ہے۔
سوال میں ذکر کردہ روایت کے الفاظ (اس شخص کا وضو نہیں، جس نے وضو کے شروع میں بسم الله  نہیں کہا) میں نفی سے مراد "نفی کمال" ہے، یعنی وضو کی ابتدا میں بسم اللہ نہ پڑھنے والے کو بسم اللہ پڑھنے کا اجر و ثواب نہیں ملے گا، لیکن بسم اللہ نہ پڑھنے سے وضو کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، بلکہ وضو معتبر ہوگا۔
مذکورہ بالا روایت میں نفی سے "نفی کمال" مراد لینے کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1) وضو کی ابتدا لازمی طور پر بسم اللہ سے کرنا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے، خود سوال میں ذکر کردہ سنن ابو داؤد کی روایت کے تمام طرق کو محدثین نے سندا کمزور قرار دیا ہے، لہذا اس طرح کی کمزور سند والی روایت وجوب ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
2) بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا طریقہ کار احادیث مبارکہ میں تفصیل سے منقول ہے، لیکن کسی بھی روایت میں بسم اللہ پڑھنے کا ذکر نہیں ملتا، اگر وضو کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھنا ضروری ہوتا، تو صحابہ کرام اسے ضرور نقل فرماتے۔
3) سنن بیہقی کی ایک روایت میں اس بات کی صراحت ہے کہ اگر کوئی شخص وضو کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے، تو اس سے وضو کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "جس شخص نے اللہ کے نام (بسم اللہ) کے ساتھ وضو کیا، تو یہ وضو اس کے پورے جسم کی پاکی کا ذریعہ بنے گا، اور جس شخص نے اللہ کے نام ( بسم اللہ) کے بغیر وضو کیا، تو یہ وضو صرف اعضاء وضو کی پاکی کا ذریعہ بنے گا"۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ بسم اللہ کے بغیر بھی وضو معتبر ہے، البتہ بسم اللہ پڑھ کر وضو کرنا بہتر اور مستحب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبی داؤد: (رقم الحدیث: 101، ط: المکتبۃ العصریۃ)
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا محمد بن موسى، عن يعقوب بن سلمة، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا صلاة لمن لا وضوء له، ولا وضوء لمن لم يذكر اسم الله تعالى عليه۔
 
السنن الکبری للبیہقی: (رقم الحدیث: 200، ط: دار الکتب العلمیۃ)
أخبرنا الفقيه أبو بكر أحمد بن محمد الحارثي، أنا علي بن عمر الحافظ، ثنا محمد بن مخلد، ثنا أبو بكر محمد بن عبد الله الزهري، ثنا مرداس بن محمد بن عبد الله بن أبي بردة، ثنا محمد بن أبان، عن أيوب بن عائذ الطائي، عن مجاهد، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من توضأ وذكر اسم الله تطهر جسده كله، ومن توضأ ولم يذكر اسم الله لم يتطهر إلا موضع الوضوء.

الھدایۃ: (باب الوضوء، 15/1، ط: دار احیاء التراث العربی)
قال: " وتسمية الله تعالى في ابتداء الوضوء " لقوله عليه الصلاة والسلام: " لا وضوء لمن لم يسم الله " والمراد به نفي الفضيلة. والأصح أنها مستحبة وإن سماها في الكتاب سنة ويسمى قبل الاستنجاء وبعده هو الصحيح.

المغنی لابن قدامۃ: (76/1، ط: مکتبۃ القاھرۃ)
والتسمية عند الوضوء. ظاهر مذهب أحمد - رضي الله عنه -: أن التسمية مسنونة في طهارة الأحداث كلها. رواه عنه جماعة من أصحابه. وقال الخلال الذي استقرت الروايات عنه أنه لا بأس به. يعني إذا ترك التسمية. وهذا قول الثوري ومالك والشافعي وأبي عبيدة، وابن المنذر وأصحاب الرأي.

درس ترمذی: (231/1، ط: مکتبۃ دار العلوم کراتشی)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2653 Oct 28, 2021
بسم اللہ ke / kay baghair wazu karne ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.