عنوان: تین طلاقیں دینے کے بعد رجوع کرنے کا حکم اور لڑکی پر بےجا تہمت کی وجہ سے منگنی توڑنے کا حکم(8686-No)

سوال: السلام علیکم، میرے دو سوال ہیں: سوال (1 ) ایک شخص نے یہ کہہ کر دوسری شادی کی کہ میں نے پہلی بیوی کہو طلاق دے دی، لیکن شادی والے دن اُس کی پہلی بیوی آئی اور کہا میں اس کی بیوی ہوںِ اُس شخص نے سب کے سامنے کہا کہ میں تم کو طلاق دے چکا ہوں، اب تم میرے لیے حرام ہو چکی ہو، لیکن اُس کی پہلی بیوی کے ساتھ چند لوگ تھے، زبردستی اُس شخص کو ساتھ لیکر چلے گئے، شام کو وہ شخص دوبارہ واپس آتا ہے اور کہتا ہے میں نے اپنے تمام رشتہ داروں کے سامنے پہلی بیوی کو طلاق دے دی ہے اور کراچی سٹی کورٹ میں جاکر شادی کرلیتا ہے، نکاح نامہ میں طلاق یافتہ لکھواتا ہے، وہ نکاح نامہ یونین کونسل میں رجسٹرڈ کرواتا ہے، 12 دن پاکستان میں رہتا ہے، پھر باہر چلا جاتا ہے اور ڈیڑھ سال بعد واپس پاکستان آیا، پھر اُس کی پہلی بیوی نے کہا گھر آئیں اور سب کے سامنے مجھ سے بات کرو، پھر وہ شخص اپنے بھائی کے گھر گیا، سب کے سامنے کہا میں تمہیں طلاق دے دیتا ہوں، اور دو ماہ بعد باہر چلا گیا، باہرجانے کے تقریبا چھ ماہ بعد اپنی دوسری بیوی کو فون کر کے بولتا ہے کہ میں نے پہلی بیوی سے رجوع کرلیا ہے، اس شخص نے مختلف مقام اور مختلف افراد کے سامنے کئی بار کہا میں تم کہ طلاق دیتا ہوں اور دے چکا ہوں، تم میرے لیے حرام ہو، اب جب بھی پاکستان آتا ہے، پہلی بیوی کے ساتھ قیام کرتا ہے، کہتا ہے کہ میں نے مولوی سے پوچھ کر رجوع کیا ہے، کبھی خود کواہلحدیث، کبھی شافعی کہتا ہے، اب کہتا ہے کہ قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ دوبارہ اُسی عورت سے شادی نہیں کرسکتے؟ کیا تین طلاق کے بعد رجوع کرنا صحیح ہے؟
سوال ( 2 ) میں نے اپنے بیٹے کی منگنی میری سالی کے شوہر کی بھتیجی سے کی تھی، جبکہ یہ رشتہ بھی میری سالی اور اس کے شوہر نے ہی لگوایا تھا، میری ساڑُھو اور ان کے بھائی میں آپس میں کوئی ناچاقی ہوئی، مسئلہ کچھ ایسا ہے کہ میرے ساڑُھو کی دو بیویاں ہیں، یعنی ایک میری سالی دوسری عورت، میرے ساڑُھو کی دوسری بیوی کی بہن کا انتقال ہوتا ہے، ان کے بھائی کے گھر والے انتقال میں نہیں جاتے، کیونکہ ان کی بہن کا انتقال کروونا سے ہوا تھا، اب اُس عورت نے میرے ساڑُھو کو اپنے بھائی کے خلاف کردیا، میرے ساڑُھو نے میرے گھر والوں کو فون کر کے کہا کہ لڑکی کا چال چلن ٹھیک نہیں ہے، لڑکی پہلے کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ چکی ہے، میں نے ساڑُھو سے پوچھا کہ آپ کو کس نے یہ بات کہی کہ لڑکی پہلے کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ چکی ہے؟ اُس نے کہا میری دوسری بیوی نے کہا ہے، اُس کو یہ بات میری چھوٹی بہن نے بتائی ہے، جب سامنے کرنے کا کہا تو کہتا ہے کہ میری بہن سے میرا بھائی ناراض ہوگا، جبکہ یہ ایک غلط الزام اور بہتان تہمت ہے، کسی کی بیٹی کوبدنام کرنا، وہ بچی بہت معصوم ہے، میرے بیٹا کہتا ہے کہ ابو اب میں یہاں شادی نہیں کرونگا، میری کوئی بیٹی نہیں ہے، لیکن ایک باپ ہونے کے ناطے میں ایک بےگنا ہ بیٹی کو ایسے داغدار ہوتے نہیں دیکھ سکتا، جبکہ الزام لگانے والا لڑکی کا سگا چاچا ہے، وہ صرف پہلی بیوی کی باتوں میں آکر ایسے غلط الزامات لگا رہا ہے، اب میرا بیٹا منع کررہا ہے، میں اس بات سے پریشان ہوں۔ قرآن سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ آیا اس شخص کے یہ دونوں عمل درست ہیں؟

جواب: 1) سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر شوہر نے اپنی بیوی کو تین یا تین سے زائد بار طلاق دی ہے، تو اس شخص کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوکر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے، بیوی شوہر کے لیے حرام ہوگئی ہے، اور اب رجوع کا حق بھی ختم ہو گیا ہے۔
تین طلاقیں دینے کی صورت میں عدت کے دوران رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ہے، اور نہ ہی عدت گزرنے کے بعد اس شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے، جب تک عورت کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے اور اس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہ کرے، پھر اگر وہ طلاق دیدے یا انتقال کر جائے، تو عدت گزرنے کے بعد طرفین کی رضامندی سے نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں اسی شخص سے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔
یہ حکم قرآن کریم اور احادیث نبویہ (علی صاحبھا الصلاۃ والسلام) سے ثابت ہے، جمہور صحابہ و تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع بھی اسی پر ہے، اور ائمہ اربعہ (رحمہم اللہ تعالی) کا بالاتفاق یہی مسلک ہے۔
2) واضح رہے کہ کسی پاکدامن عورت پر بے جا تہمت لگانا انتہائی سخت گناہ اور ناجائز کام ہے، جس شخص نے تہمت لگائی ہے، اس پر لازم ہے کہ اپنے اس فعل پر ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کرے۔
نیز واضح ہو کہ منگنی وعدہ نکاح کا نام ہے، عقد نکاح کا نہیں، منگنی توڑنا وعدہ خلافی ہے، بغیر کسی معقول اور صحیح عذر کے وعدہ خلافی کرنا گناہ ہے، لہذا محض تہمت اور شک کی بنیاد پر منگنی توڑنا درست نہیں ہے، البتہ باپ عاقل بالغ لڑکے پر اس معاملے میں زبردستی نہیں کرسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 230)
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ....الخ

القرآن الکریم: (بنی اسرائیل، الآیۃ: 34)
وَ اَوْفُوْا بِالْعَہْدِ ۚ اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُوْلًاo

شرح النووی علی مسلم: (70/10، ط: دار احیاء التراث العربی)
وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف يقع الثلاث.

الفتاوی الھندیۃ: (مطلب فی الدین، 349/1، ط: دار الفکر)
(فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا.

الدر المختار: (12/3، ط: دار الفکر)
وكذا أنا متزوجك أو جئتك خاطبا لعدم جريان المساومة في النكاح أو هل أعطيتنيها أن المجلس للنكاح وإن للوعد فوعد۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 711 Oct 30, 2021

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.