سوال:
ہمارے ایک بھائی نے والد کے گھر میں چار سال پہلے 6 لاکھ روپے لگا کر گھر بنوایا تھا، پھر شادی کرکے اس مکان میں رہنے لگے، اب اس گھر کو فروخت کرنا ہے، تو بھائی کہہ رہے ہیں کہ مجھے میرے حصہ کے ساتھ ساتھ یہ چھ لاکھ روپے بھی چاہیں، براہ کرم اس سے متعلق آپ رہنمائی فرمائیں کہ کیا ان کا یہ مطالبہ کرنا درست ہے؟
جواب: مذکورہ صورت میں اگر بھائی نےوالد صاحب کے گھر کی تعمیر وغیرہ میں اپنی ذاتی رقم لگائی، اور یہ رقم والد صاحب یا بھائی کے ساتھ مکان کی تعمیر میں تعاون کرنے کے لیے بطورِ ہدیہ (گفٹ) لگائی ہے، تو ایسی صورت میں یہ مکان پورا والد صاحب کی ملکیت شمار ہوگا، اور میراث کے شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
اور اگر اس نے وہ رقم قرض کے طور پر لگائی تھی، تو بھائی کو صرف قرض کی رقم ہی واپس لینے کا حق حاصل ہوگا، اور مکان والد صاحب کی ملکیت ہوگا۔
لیکن اگر اس نے پیسہ لگاتے وقت کوئی وضاحت نہیں کی تھی (نہ ہدیہ کی، نہ قرض کی) تو ایسی صورت میں ان کے لگائے ہوئے پیسے ہدیہ (گفٹ) سمجھے جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تنقيح الفتاوى الحامدية: (420/4)
"في الفتاوى الخيرية: سئل في ابن كبير ذي زوجة وعيال له كسب مستقل حصل بسببه أموالا ومات هل هي لوالده خاصة أم تقسم بين ورثته؟ أجاب: هي للابن، تقسم بين ورثته على فرائض الله تعالى حيث كان له كسب مستقل بنفسه
و فیه ایضاً: (60/6)
والأصل أن من بنى في دار غيره بناء وأنفق في ذلك بأمر صاحبه كان البناء لصاحب الدار وللباني أن يرجع على صاحب الدار بما أنفق ا ه
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی