سوال:
میرے سسر کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، ان کے پاس ایک فلیٹ اور ایک گھر ہے، میرے سسر نے فیصلہ کیا کہ ان کی وفات کے بعد فلیٹ ان کی بیٹی کا ہوگا٬ اور انہوں نے وہ فلیٹ بیٹی کی شادی کے موقع پر اسے دیدیا تھا اور گھر دونوں بیٹوں کا ہوگا۔ایک بیٹا یہاں رہتا ہے، جبکہ دوسرا بیٹا بیرون ملک مقیم ہے۔
اس کے بعد داماد نے اپنے سسر کو فلیٹ کی قیمت دی، یعنی اسے فلیٹ بیچنے اور اس کی قیمت لینے پر زور ڈالا، چنانچہ اس نے فلیٹ کی قیمت سسر کو دیدی، اس کے بعد سسر کی وفات ہوگئی۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ گھر دونوں بیٹوں کا ہوگا (جس کے ایک پورشن میں بڑا بھائی اپنی فیملی کے ساتھ مقیم اور وہی اس گھر پر قابض ہے) یا اس میں بیٹی کا بھی حصہ ہوگا؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں چونکہ آپ کے سسر نے اپنی وفات کے بعد اولاد میں جائیداد تقسیم کرنے کا طریقہ کار بتایا اور اس سلسلے میں اپنی خواہش اور وصیت کا اظہار کیا ہے٬ اور وصیت کا اصول یہ ہے کہ آدمی کی اپنے ورثاء کے حق میں وصیت شرعا معتبر نہیں ہوتی٬ اس لئے اس وصیت کا کوئی اعتبار نہیں ہے٬ لہذا ان کی وفات کے بعد ان کی مملوکہ ساری جائیداد میراث کے شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔
سوال میں ذکر کردہ معلومات کے مطابق مرحوم نے جو فلیٹ اپنی بیٹی کو دینے کی خواہش ظاہر کی تھی٬ داماد نے وہ فلیٹ اپنے سسر سے خرید لیا تھا٬ اگر یہ بات درست ہے٬ تو اس فلیٹ کا اب وہ داماد ہی مالک ہے٬ لہذا یہ فلیٹ مرحوم کی جائیداد میں شمار نہیں ہوگا٬ باقی گھر یا اس کے علاوہ جو بھی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد جس کا مرحوم مالک تھا٬ وہ تمام اشیاء میراث کے شرعی اصولوں کے مطابق ورثاء میں تقسیم ہوگی٬ جس کے تحت مرحوم کی بیٹی کو بھی اس کا شرعی حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 2120)
عن أبي أمامۃ الباہلي رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول فيخطبۃ عام حجۃ الوداع: "إن اللّٰہ تبارک وتعالیٰ قد أعطی کل ذي حقٍ حقہ، فلا وصیۃ لوارثٍ"
عمدۃ القاری: (55/14)
وقال المنذري: "إنما یبطل الوصیۃ للوارث في قول أکثر أہل العلم من أجل حقوق سائر الورثۃ، فإذا أجازوہا جازت، کما إذا أجازوا الزیادۃ علی الثلث".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی