سوال:
اگر کوئی عورت 15 یا 20 دن میں نفاس سے پاک ہو جائے تو کیا اس کے بعد شوہر اس سے صحبت کر سکتا ہے؟
جواب: اگر کسی عورت کو پندرہ یا بیس دن بعد خون آنا رک جائے اور دھبہ بھی نہ آئے تو دیکھا جائے گا کہ یہ اس کا پہلا بچہ ہے یا اس سے پہلے بھی بچے ہوتے رہے ہیں، اگر یہ نفاس پہلے بچے کے بعد آیا ہے، تو چونکہ اس کی پہلے سے عادت متعین نہیں ہے، اس صورت میں حکم یہ ہےکہ خون اور دھبہ کے مکمل رک جانے کے بعد عورت سے غسل کرنے کے بعد صحبت کرنا جائز ہے، چاہے چالیس دنوں سے کم ہی کیوں نہ ہو۔
اور اگر اس سے پہلے بھی اس عورت کے بچے ہوں تو اس کی عادت کو دیکھا جائے گا،اگر اس کی عادت پندرہ یا بیس دن کے بعد خون کے بند ہونے کی ہے تو اس صورت میں پندرہ یا بیس دن کے بعد خون نہ آنے کی صورت میں غسل کے بعد صحبت کرنا جائز ہے، چالیس دن انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ عادت متعین ہونے کی صورت میں متعین دنوں سے پہلے اگر خون بند ہوجائے تو اسے ہمبستری کے حق میں حالت نفاس میں ہی شمار کریں گے، البتہ یہ عورت احتیاطاً روزہ بھی رکھے گی اور نماز کو بھی نماز کے آخری وقت تک (وجوباً) مؤخر کر کے پڑھے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیۃ: (38/1، ط: دار الفکر)
(الفصل الثاني في النفاس) وهو دم يعقب الولادة كذا في المتون ولو ولدت ولم تر دما لا يجب الغسل عند أبي يوسف وهو رواية عن محمد قال في المفيد هو الصحيح لكن يجب عليها الوضوء بخروج النجاسة مع الولد. هكذا في التبيين وعن أبي حنيفة - رحمه الله - يجب الغسل وأكثر المشايخ أخذوا بقوله وبه كان يفتي الصدر الشهيد۔۔۔أقل النفاس ما يوجد ولو ساعة وعليه الفتوى وأكثره أربعون. كذا في السراجية.
وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس هكذا في المحيط.
الطهر المتخلل في الأربعين بين الدمين نفاس عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وإن كان خمسة عشر يوما فصاعدا وعليه الفتوى.
ثم العادة في النفاس تنتقل برؤية المخالف مرة عند أبي يوسف. هكذا في الخلاصة۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ومنها) حرمة الجماع. هكذا في النهاية والكفاية وله أن يقبلها ويضاجعها ويستمتع بجميع بدنها ما خلا ما بين السرة والركبة عند أبي حنيفة وأبي يوسف. هكذا في السراج الوهاج۔۔۔۔۔وكذا النفاس فإن رأت لا على العادة ولم يجاوز الأربعين انتقلت. هكذا في المحيط وإذا جاوز الأربعين ولها عادة في النفاس ردت إلى أيام عادتها سواء كان ختم معروفتها بالدم أو بالطهر عند أبي يوسف. هكذا في السراج الوهاج.
رد المحتار: (301/1، ط: دار الفکر)
وذكر في الرسالة أن الأصل فيه أن المخالفة للعادة إن كانت في النفاس، فإن جاوز الدم الأربعين فالعادة باقية ترد إليها والباقي استحاضة، وإن لم يجاوز انتقلت العادة إلى ما رأته والكل نفاس
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی