سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! پوچھنا یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ کسی مسلمان کا مال اس کی دلی رضا مندی کے بغیر لینا جائز نہیں ہے، اس کی تفصیل بتا دیں۔ ہم دوست آپس میں ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ یار آج تو نے کپڑے اچھے پہنے ہیں، چائے پلا یا کھانا کھلا، کیا یہ جائز ہے؟
اسی طرح گھر میں ایک ہی فریج ہے، اس میں بھائی کی بھی چیزیں ہیں، ہم بغیر ان کی اجازت کے کھا جاتے ہیں کہ بھائی کی ہیں، کیا یہ جائز ہے؟
اسی طرح اگر گھر میں کچھ نہیں پکا، لیکن ہم نے امید لگا لی کہ اوپر آنٹی رہتی ہیں، وہ بھیج دیں گی، کیا یہ طمع میں آئے گا؟
دل کا سوال زبان کا سوال نہیں کرنا، اس کو بھی ذرا تفصیل سے بتا دیں۔ جزاکم اللّه
جواب: حدیث شریف میں ہے: جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا : خبردار کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو، خبردار کسی آدمی کی ملکیت کی کوئی چیز اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال اور جائز نہیں ہے۔
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے:
حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی آدمی کے لیے اپنے بھائی کی لاٹھی بھی اس کی دلی رضامندی کے بغیراٹھانا حلال نہیں ہے۔
یہ بات آپ ﷺ نے ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کے مال کی اللہ تعالی کی طرف سے حرمت کی سختی اورشدت کی وجہ سے ارشاد فرمائی۔
مذکورہ احادیث مبارکہ میں جناب رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کہ طیب نفس کے بغیر کسی کا مال حلال نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کا مال اس وقت تک حلال نہیں, جب تک کہ وہ بغیر کسی معاشرتی، اخلاقی اور سماجی دباو کے اپنے مال کے استعمال کی اجازت نہ دے دے، لہذا جہاں یقینی طور پر معلوم ہو کہ یہاں طیب نفس نہیں پایا جا رہا، بلکہ مالک نے کسی دباو کی وجہ سے اجازت دی ہے یا اپنا مال خرچ کیا ہے، تو یقینا اس حدیث کی رو ایسے مال اور ایسی دعوت کا کھانا جائز نہیں، کیونکہ حقیقتاً اجازت وہی ہے، جس میں کسی قسم کا خارجی دباو شامل نہ ہو، بلکہ خالص اپنی رضاء اور خوشی سے یہ اجازت دی گئی ہو۔
لہذا سوال میں ذکرکردہ صورت میں اگر دوست کوئی چیز کھلانے میں ناگواری محسوس کریں، اور دلی رضامندی سے نہ کھلانا چاہیں، تو ان پر دباو ڈال کر اور انہیں مجبور کرکے کھانا جائز نہیں ہے، یہی حکم مشترکہ گھر میں رہتے ہوئے بھائیوں کی چیزیں استعمال کرنے کا ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ مال سبز و شیریں ہے ( نظر میں خوشنما اور دل کو لذت دینے والا ہے) لہٰذا جو شخص اس مال کو بے پروائی سے( بغیر ہاتھ پھیلائے اور بغیر طمع و حرص کے) حاصل کرتا ہے، تو اس میں برکت عطا فرمائی جاتی ہے، اور جو شخص اسے نفس کے طمع و حرص کے ساتھ حاصل کرتا ہے، تو اس میں برکت نہیں ہوتی اور اس کی حالت اس شخص کی مانند ہوتی ہے، جو کھانا تو کھاتا ہے، مگر اس کا پیٹ نہیں بھرتا، (گویا بے برکتی اور کثرت حرص کی وجہ سے یہ حال ہوتا ہے)
لہذا کسی کی طرف سے کوئی چیز ملنے کی صرف امید کا دل میں پیدا ہوجانا "اشرافِ نفس (طمع) میں نہیں آتا ہے، لیکن اگر انتظار اور امید کے بعد اس چیز کے نہ ملنے پر ناگواری اور تکلیف محسوس ہو، تو یہ "اشراف نفس" (طمع ) میں آتا ہے، جس سے حدیث شریف میں منع کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (رقم الحديث: 3143، 92/4، ط: دار طوق النجاة)
عن سعيد بن المسيب، وعروة بن الزبير، أن حكيم بن حزام رضي الله عنه، قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأعطاني، ثم سألته فأعطاني، ثم قال لي: «يا حكيم، إن هذا المال خضر حلو، فمن أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه، ومن أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه، وكان كالذي يأكل ولا يشبع، واليد العليا خير من اليد السفلى»، قال حكيم: فقلت: يا رسول الله، والذي بعثك بالحق، لا أرزأ أحدا بعدك شيئا حتى أفارق الدنيا، فكان أبو بكر يدعو حكيما ليعطيه العطاء فيأبى أن يقبل منه شيئا، ثم إن عمر دعاه ليعطيه فأبى أن يقبل، فقال: يا معشر المسلمين إني أعرض عليه حقه الذي قسم الله له من هذا الفيء فيأبى أن يأخذه، فلم يرزأ حكيم أحدا من الناس شيئا بعد النبي صلى الله عليه وسلم حتى توفي.
مسند احمد: (رقم الحدیث: 20695، 34/299، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، قال: كنت آخذا بزمام ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم في أوسط أيام التشريق، أذود عنه الناس، فقال: " يا أيها الناس، هل تدرون في أي يوم أنتم؟ وفي أي شهر أنتم ؟ وفي أي بلد أنتم؟ " قالوا: في يوم حرام، وشهر حرام، وبلد حرام، قال: " فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، إلى يوم تلقونه "، ثم قال: " اسمعوا مني تعيشوا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنه لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه، ألا وإن كل دم۔۔۔۔الخ.
صحیح ابن حبان: (رقم الحدیث: 5978، 316/3، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
عن أبي حميد الساعدي، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لامرئ أن يأخذ عصا أخيه بغير طيب نفس منه»، قال ذلك لشدة ما حرم الله من مال المسلم على المسلم.
مرقاة المفاتيح: (1310/4، ط: دار الفكر)
" فمن أخذه " أي المال أخذا ملتبسا " بسخاوة نفس " أي من الأخذ يعني بلا سؤال ولا إشراف ولا طمع أو بسخاوة نفس وانشراح صدر من المعطي "
و فیھا ایضاً:
" ومن أخذه بإشراف نفس " يحتمل الوجهين أي بطمع أو حرص أو تطلع " لم يبارك له فيه " قيل: الإشراف النظر إلى شيء يرى بكراهيته من غير طيب نفس بالإعطاء، وقال ابن الملك: أي نفس المعطي واختياره من غير تعريض من السائل بحيث لو لم يعطه لتركه ولم يسأله أو المراد نفس السائل بأن يكون ذلك كناية عن عدم الإعطاء أو عن إنفاق الصدقة وعدم إمساكها " وكان " أي السائل الآخذ الصدقة في هذه الصورة لما يسلط عليه من عدم البركة وكثرة الشره والنهمة " كالذي يأكل ولا يشبع " أي كذي آفة يزداد سقما بالأكل وهو معبر عنه بجوع البقر وفي معناه مرض الاستسقاء " واليد العليا " أي المعطية أو المتعففة " خير من اليد السفلى " وهي الآخذة أو السائلة وقيل السفلى المانعة.
رد المحتار: (61/4، ط: دار الفکر)
لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی