سوال:
السلام علیکم، مسئلہ یہ ہے کہ میں نے خضر بن انور نامی شخص سے بتاریخ 1/ /1/1427 ه.ق میں سترہ 17 لاکھ تومن (ایرانی کرنسی) قرض لیا تھا، اب سنہ 1443 ھ۔ق، تقریبا سولہ 16 سال بعد میں قرض ادا کرنا چاہتا ہوں اور آج کل کے تومن (ایرانی کرنسی) کی قیمت اُس وقت کے مقابلے میں بہت کم ہے تو کیا میں یہ قرض اُس وقت کے تومن کی قیمت سے ادا کروں یا اِس وقت کے تومن کی قیمت سے ادا کرنی ہوگی؟ براه کرم مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: قرض کے بارے میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ قرض لینے کے بعد اس کا مثل مقدار میں برابری کے ساتھ واپس کیا جائے، قرض میں لی ہوئی چیز کی قیمت کا اعتبار نہیں ہے، کرنسی نوٹ جو کہ ثمن عرفی یعنی اعتباری مال ہے، قرض کی ادائیگی میں ان کا حکم یہی ہے کہ جتنے کرنسی نوٹ ادھار لیے ہیں، اتنے ہی کرنسی نوٹ واپس کیے جائیں، خواہ ان کی قیمت میں فرق آ گیا ہو، لہذا آپ نے جتنی رقم ادھار لی تھی، اتنی ہی مقدار میں رقم واپس کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (396/7، ط: دار الکتب العلمیۃ)
وأما حكم القرض فهو ثبوت الملك للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثله في ذمة المستقرض للمقرض للحال، وهذا جواب ظاهر الرواية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی