سوال:
السلام عليكم، مفتی صاحب ! ہمارے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے مرنے سے پہلے ایک فلیٹ میری ایک بہن کے نام کر دیا تھا، جس میں دونوں کی حصہ داری تھی، والد صاحب کے %60 اور بہن کے %40، مگر اُس کے بعد انھوں نے ایک تحریر بنواٸی تھی، جس میں لکھا تھا کہ اس فلیٹ کی تقسیم سب بچوں میں ہوگی، اس کے علاوہ اس فلیٹ کا کرایہ بھی وہی لیتے تھے، اور اس کے بعد اس میں خود بیٹے کے ساتھ رہاٸش پذیر بھی تھے، تو اس جاٸیداد کی تقسیم کیسے ہوگی؟ شریعت کی روشنی میں رہنماٸی فرماٸیں۔
تنقیح اول
محترم! آپ کے سوال میں چند باتیں وضاحت طلب ہیں:
1- جب آپ کے والد صاحب نے فلیٹ میں سے اپنے 60 فیصد حصے کو آپ کى بہن کو گفٹ کیا، تو اس وقت اس فلیٹ کى نوعیت کیا تھى؟ آیا وہ خود اس فلیٹ میں رہائش پذیر تھے یا آپ کى بہن اس میں رہائش پذیر تھیں یا وہ فلیٹ کسى اور کى رہائش میں تھا؟
2- اگر آپ کے والد صاحب اس فلیٹ میں رہائش پذیر تھے، تو کیا انہوں نے گفٹ کرنے کے بعد اس فلیٹ سے اپنا قبضہ و تصرف ختم کر کے آپ کى بہن کے قبضہ و تصرف میں دے دیا تھا؟ یعنى اس مکان کو خالى کر کے اس کا قبضہ آپ کى بہن کے حوالے کردیا تھا؟
3- وہ تو اس فلیٹ کو گفٹ کر چکے تھے اور گفٹ کرنے سے ملکیت ختم ہو جاتی ہے، جب ملکیت ہی نہ رہی، تو کرایہ کس طرح لیتے تھے اور کس سے لیتے تھے؟
4- جب وہ اس فلیٹ میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہائش پذیر تھے، اس رہائش کى نوعیت کیا تھى؟ جبکہ وہ اس فلیٹ کو گفٹ کرچکے تھے، کیا وہ آپ کى بہن کى اجازت سے بغیر کرایہ کے بطور عاریت اس فلیٹ میں رہتے تھے یا کرایہ دے کر اس میں رہتے تھے؟
مذکورہ بالا باتوں کى مکمل وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
جوابات تنقیح اول:
1) میرے والد اور میں (ان کا بیٹا) ہم اس فلیٹ میں رہ رہے تھے۔
2) نہیں، وہ اپنے بیٹے کے ساتھ اس فلیٹ میں رہ رہا تھے، اپنی بیٹی کو فلیٹ کا قبضہ نہیں دیا، وہ کینیڈا میں رہ رہی تھی، اس گفٹ ڈیڈ کی وجہ صرف ان کی بہو کا دباؤ تھا۔
3) جب والد نے اس فلیٹ کو دو سال کے لیے کرائے پر دیا، تو وہ تمام خود کرایہ لے رہے تھے اور اپنے بیٹے کو اس پراپرٹی کا کرایہ ادا کرنے کے لیے دے رہے تھے، جس میں وہ بعد میں منتقل ہوئے تھے، وہ 2020 میں دوبارہ فلیٹ میں واپس آئے اور تب سے وہ وہاں مقیم تھے۔
4) نہیں، انہوں نے کبھی کوئی کرایہ نہیں دیا، کیونکہ یہ سمجھا گیا تھا کہ اس فلیٹ میں ان کا 60 فیصد حصہ ہے۔
تنقیح دوم
محترم! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ آپ نے جو سوال میں تحریر کیا ہے کہ اس فلیٹ میں "دونوں کی حصہ داری تھی، والد صاحب کے 60 فیصد اور بہن کے چالیس فیصد"
اس "حصہ داری" سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا یہ مراد ہے کہ دونوں نے رقم ملا کر فلیٹ خریدا تھا اور والد صاحب کی ملکیت اس فلیٹ میں 60 فیصد اور بہن کی ملکیت 40 فیصد تھی اور پھر انہوں نے اپنے حصے یعنی 60 فیصد کو اپنی بیٹی کے نام کر دیا؟ یا حصہ داری سے آپ کی یہ مراد ہے کہ آپ کی بہن کی ملکیت اس فلیٹ میں پہلے سے نہیں تھی، بلکہ آپ کے والد صاحب کی ملکیت میں پورا فلیٹ تھا، لیکن اس میں سے انہوں نے 40 فیصد آپ کی بہن کے نام کر کے انہیں گفٹ کیا تھا؟
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
جواب تنقیح دوم
والد نے اپنی زندگی میں ایک جائیداد میرے بہن کو زبانی طور پر ھدیہ کی، اور انہوں نے کبھی بھی اس کا قبضہ میری بہن کو نہیں دیا، میرے بھائی اس گھر میں رہائش پذیر تھے، والد صاحب کے ساتھ، لیکن بعد میں والد صاحب نے اس فلیٹ کی تقسیم سے متعلق ایک حلف نامہ تیار کیا، جس میں انہوں نے لکھا کہ اس فلیٹ میں انکا ٪60 حصہ انکے بچوں میں شریعت کے قانون کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔(فلیٹ کے حصص: والد صاحب کا حصہ ٪60 ، بہن کا حصہ ٪40) کیا آپ ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں بتا سکتے ہیں کہ یہ جائیداد کیسے تقسیم ہوگی۔
فلیٹ کی کل قیمت 16 لاکھ روپے تھی، جب بلڈر نے یہ گھر حوالہ کیا تھا، تو یہ میرے والد صاحب کے نام پر تھا، البتہ اس کی ادائیگی میں 4 لاکھ میری بہن نے دیے تھے اور 12 لاکھ میرے والد نے، پھر کچھ عرصے بعد میری بہن نے والد صاحب کو کنیڈا بلالیا، اور ان سے کہا کہ یہ فلیٹ میرے نام منتقل کردیں، بوجوہ اس وقت والد صاحب نے مکان ان کے نام منتقل کردیا، اور ایک حلف نامہ تیار کیا کہ ٪40 میری بہن کو ملے گا اور میرے والد کا حصہ ٪60 ہے، اور ہمیں زبانی بتایا کہ اس (میری بہن) کا میرے والد کی باقی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
جواب: 1- واضح رہے کہ جب کوئی شخص اپنی مملوکہ جائیداد کسی کے نام کرے، تو شرعاً یہ ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے اور ہبہ (گفٹ) کے مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جس کو گفٹ کیا ہے، اسے گفٹ کا مکمل قبضہ اور تصرف دیدے اور اس جائیداد سے اپنا تصرف اور قبضہ مکمل طور پر ختم کر کے اس کے حوالے کر دے، لہذا قبضہ دیے بغیر صرف نام کردینے سے شرعاً ہبہ تام (مکمل) نہیں ہوتا ہے۔
2- سوال اور تنقیحات کے جوابات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے والد صاحب نے وہ فلیٹ اپنی کینیڈا میں مقیم بیٹی کے ساتھ مشترکہ طور پر خریدا تھا، کیونکہ اس فلیٹ کی قیمت 16 لاکھ روپے میں آپ کے والد صاحب نے 12 لاکھ روپے اور آپ کی ہمشیرہ نے 4 لاکھ روپے ادا کیے تھے، البتہ فیصدی حصہ باہمی رضامندی سے %40 اور %60 کے حساب سے رکھا گیا ہے، اس لحاظ سے اس فلیٹ میں آپ کی ہمشیرہ کی ملکیت 40 فیصد اور آپ کے والد صاحب کی 60 فیصد تھی، چونکہ آپ کے والد صاحب نے وہ فلیٹ اپنی کینیڈا میں مقیم بیٹی کے نام کرنے کے بعد اس کا قبضہ اسے نہیں دیا تھا، تو یہ ہبہ (گفٹ) مکمل نہیں ہوا، لہذا آپ کے والد صاحب کا حصہ ان کی ملکیت میں بدستور برقرار رہا اور آپ کی بہن کا 40 فیصد حصہ ان کی ملکیت میں برقرار رہا۔
3- جیسا کہ تنقیح دوم سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے والد صاحب نے وفات سے قبل ایک حلف نامہ تیار کروایا، جس کا مضمون یہ تھا کہ اس فلیٹ کا 60 فیصد حصہ ان کے بچوں میں تقسیم کیا جائے گا، چنانچہ آپ کے والد صاحب کی وفات کے بعد اس فلیٹ میں ان کا 60 فیصدی حصہ ان کے دوسرے اموالِ وراثت میں شمار ہو کر تمام ورثاء (بشمول آپ کی بہن کے جن کا اس فلیٹ میں 40 فیصد حصہ ہے) میں شریعت کے اصولوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔
4- آپ کے والد صاحب کا زبانی طور پر یہ کہنا کہ کینیڈا والی بیٹی کا ان کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے، شرعا یہ بات معتبر نہیں ہے، لہذا ان کی وفات بعد ان کی وہ بیٹی بھی اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ مال وراثت میں شریک ہوگی اور شریعت کے مطابق جو اس کا حصہ بنے گا، وہ اسے دیا جائے گا، حتی کہ والد صاحب کے فلیٹ کے 60 فیصدی حصے میں بھی اس کا وراثتی حصہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاویٰ الہندیۃ: (الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ، 378/4، ط: مکتبة رشیدیة)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الھبة، 690/5، ط: سعید)
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی