سوال:
السلام علیکم، میرا نام سلمان فصیح ہے، مسئلہ یہ ہے کہ میری بیوی نے مجھ سے 2014 میں عدالت سےخلع لے لیا، اس سے میری ایک بیٹی ہے، اب اس کی عمر 15 سال اور ایک بیٹا 8 سال کا ہے۔
خلع کے دو یا تین مہینے کے اندر ایک دفعہ ہم نے حقوق زوجیت بھی ادا کرے، مگر مجھے اس کی جس بات پر اعتراض تھا کہ وہ اپنے نام نہاد بھائی اور نام نہاد کزنوں سے دوستی چھوڑ دے، وہ اس نے منظور نہیں کرا، جس پر میں نے ایک ہی دفعہ پیپر پر اسکو تین طلاق لکھ کر دے دی اور سب کچھ گھر بار سامان اور بچے اس کے پاس چھوڑ کر نکل گیا۔
اس وقت سے لے کر اب تک میرا اس سے کوئی جسمانی رشتہ نہیں ہے، مگر میں آج تک اپنے بچوں کا مکمّل خرچہ دیتا ہوں اور اپنے بچوں سے جہاں وہ رہتی ہے، وہاں سے باہر ملاقات رکھتا ہوں، اس عورت نے عدّت نہیں گزاری، بلکہ اپنی ماں کے گھر اسکا آنا جانا لگا رہا اور اس کے مرد دوستوں اور نام نہاد کزنز کا بھی اس عورت کے گھر آنا جانا لگا رہا۔
2 سال پہلے اس عورت نے کسی دارالافتاء گلستان جوہر سے فتویٰ لیا۔ جس میں لکھا ہے کہ پہلے میں نے اسکو زبانی ایک طلاق دی۔ اس کے بعد اس عورت نے خلع لیا۔ پھر میں نے اس کو تحریری طلاق دی اور اس درمیان 7 سال میں کوئی جسمانی رابطہ نہیں ہوا، جبکہ میں نے ایک دفعہ ہی تحریری طلاق لکھ کر دی تھی۔
اس فتویٰ میں جواب لکھا ہے کہ اب طلاق ہو چکی ہے۔ اب اس عورت نے کسی سے اس فتویٰ پر ڈھائی سال پہلے نکاح کر لیا ہے، جسکا مجھے دو یا تین ماہ پہلے پتہ چلا، باوجود اس عورت کے دوسرے نکاح کے اس نے آج بھی شناختی کارڈ پر زوجہ سلمان فصیح کانام رکھا ہوا ہے، جبکہ اب اس کے دوسرے شوہر کا نام ہونا چاہیے، جب میں نے اسکو کہا کہ نام بدل واؤ، تو عذر تراشنے شروع کر دیے کہ ٹائم نہیں ملتا، جبکہ دوسرے نکاح کو ڈھائی سال ہو چکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اسکا نکاح جائز ہے جبکہ فتویٰ میں جھوٹ لکھا ہے؟
عدّت اس نے شرعی طور پر گزاری نہیں، شوہر کا نام بدلا نہیں، اوراب کیا میں اپنی اولاد کو اپنے ساتھ رکھ سکتا ہوں، كیونكہ اب میری بیٹی جوان ہو گئی ہے اور اسکا سگا باپ یعنی میں موجود ہوں؟ جواب کا انتظار رہے گا ۔
شکریہ
جواب: پوچھی گئی صورت میں چونکہ آپ نے اپنی سابقہ بیوی کو تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی ہیں، اور اس نے اگرچہ عدت شرعی طریقہ کار کے مطابق نہیں گذاری، لیکن چونکہ اس نے زمانہ عدت گزرنے کے بعد کہیں اور نکاح کیا ہے، اس لئے اس کا یہ نکاح شرعاً درست ہے۔ آپ اپنے 8 سالہ بیٹے اور 15 سالہ بیٹی کی پرورش کے شرعاً حقدار ہیں، اس لئے آپ انہیں اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایۃ: 230)
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَo
الھندیة: (452/1، ط: رشیدیة)
والأم والجدة أحق بالغلام ، حتى يستغنى ، وقدر بسبع سنین.... والجدة أحق بالجارية حتى تحيض، وفي نوادر هشام عن محمد رحمه الله تعالى : إذا بلغت حد الشهوة، فالأب أحق.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی