سوال:
السلام علیکم، میرے شوہر کا انتقال ہوئے ڈھائی سال ہو گئے ہیں، ایصالِ ثواب کے لئے ان کے پیچھے کوئی صدقہ یا خیرات کرتی ہوں، مجھے کسی نے کہا کہ آپ صدقہ اور خیرات کرنے کے بجائے ان کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کر دیں، جبکہ مجھے معلوم ہی نہیں کہ ان کی کتنی نمازیں اور کتنے روزے قضا ہیں؟ مجھے شرعی رہنمائی چاہیے کہ میں کس طرح سے اندازہ کرو کہ کتنا فدیہ دینا ہوگا؟
برائے مہربانی شرعی رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ اگر مرحوم کے ذمے کچھ قضا نمازیں اور روزے ہوں، اور مرنے سے قبل اس نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت بھی کی ہو، تو ورثاء کے لیے اس کی نمازوں اور روزے کا فدیہ کل ترکہ کے ایک تہائی سے ادا کرنا ضروری ہے، لیکن اگر ایک تہائی مال سے تمام نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا نہ ہو سکے، تو باقی ماندہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنا ورثاء کے ذمے لازم نہیں ہے، تاہم اگر ورثاء اپنی خوشی سے مرحوم کی بقیہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کر دیں، تو یہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا۔
اسی طرح اگر مرحوم نے اپنی فوت شدہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت ہی نہ کی ہو، تو اس صورت میں ورثاء کے ذمہ مرحوم کی طرف سے فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، تاہم اگر ورثاء میں سے کوئی اپنی خوشی سے بطور تبرع ادا کرنا چاہے، تو ادا ہو جائے گا، اور امید ہے کہ مرحوم کو آخرت کی باز پرس سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
نیز مرحوم کی فوت شدہ نماز اور روزے کی تعداد معلوم نہ ہونے کی صورت میں حکم یہ ہے کہ خوب سوچ بچار کرکے ان نمازوں اور روزوں کا اندازہ لگایا جائے کہ مرحوم کی کتنی نمازیں اور روزے رہ گئے ہوں گے، اس اندازے میں اغلب (ذیادہ) کا اعتبار کیا جائے، مثلاً اگر شبہ ہو کہ ایک سال کی نماز اور روزے فوت ہوئے ہیں یا ڈیڑھ سال کے، تو ڈیڑھ سال کا اعتبار کرکے ان کا فدیہ ادا کردیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایۃ: 184)
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضاً اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ.۔۔۔۔الخ
الدر المختار مع رد المحتار: (72/2، ط: دار الفکر)
(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر).
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى.
واعلم أيضا أن المذكور فيما رأيته من كتب علمائنا فروعا وأصولا إذا لم يوص بفدية الصوم يجوز أن يتبرع عنه وليه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی