سوال:
السلام علیکم، جناب مفتی صاحب ! اکثر طالب علم اپنے گھروں سے دور ہاسٹل میں رہتے ہیں اور ہر ہفتے چھٹی میں واپس گھر جاتے ہیں، تو ان کی نماز کا کیا حکم ہے کہ وہ پوری نماز پڑھیں گے یا سفرانہ؟ چونکہ پڑھائی کے لیے تو وہ دو تین سال ہاسٹل میں رہتے ہیں، لیکن ہر ہفتے واپس گھر جانے کا بھی ارادہ ہوتا ہے۔
براہ کرم وضاحت فرمادیں۔
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر ان طلبہ کا ہاسٹل کسی دوسری جگہ واقع ہے، اور وہ جگہ ان کے شہر یا آبادی سے اڑتالیس میل یا 77.24 کلو میٹر یا اس سے زائد مسافت پر ہے، تو اس صور میں یہ طلبہ اپنے شہر یا علاقے کی آبادی اور حدود سے ہاسٹل کے لئے سفر کے ارادے سے نکلتے ہی مسافر شمار ہوں گے، اور ان پر اپنے شہر سے نکلنے کے بعد چار رکعت والی فرض نماز میں قصر کرنا لازم ہوگا۔
اسی طرح اگر ہاسٹل والے شہر یا بستی میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹہرنے کا ارادہ نہ ہو، تو وہاں بھی قصر نماز پڑھنا لازم ہوگا، البتہ جس شہر یا بستی میں ان طلبہ کے گھر واقع ہیں، وہاں یہ لوگ ہمیشہ پوری نماز پڑھیں گے، خواہ وہاں ایک ہی نماز پڑھنے کی نوبت آئے، ان کے لئے وہاں نمازوں میں قصر کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المبسوط للسرخسي: (236/1، ط: دار المعرفة)
"فإذا قصد مسيرة ثلاثة أيام قصر الصلاة حين تخلف عمران المصر؛ لأنه مادام في المصر فهو ناوي السفر لا مسافر، فإذا جاوز عمران المصر صار مسافراً؛ لاقتران النية بعمل السفر".
بدائع الصنائع: (93/1، ط: دار الکتب العلمیة)
"وأما بيان ما يصير به المقيم مسافراً: فالذي يصير المقيم به مسافراً نية مدة السفر والخروج من عمران المصر فلا بد من اعتبار ثلاثة أشياء: ... والثالث: الخروج من عمران المصر فلايصير مسافراً بمجرد نية السفر ما لم يخرج من عمران المصر".
الھدایۃ: (176/1، ط: مکتبہ رحمانیہ)
و اذا دخل المسافر فی مصرہ، اتم الصلواۃ، و ان لم ینو المقام فیہ، لانہ علیہ السلام و اصحابہ رضوان اللہ علیہم کانوا یسافرون و یعودون الی اوطانھم مقیمین من غیر عزم جدید۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی