سوال:
السلام علیکم۔ جناب مفتی صاحب ! (1) اگر بھائی بہن سے کہدے کہ آپ اپنا حق وراثت جو زمین کی صورت ہے، معاف کردو اور بہن دل سے سچ مچ بغیر دباو کے کہہ دے کہ میں نے اپنا حق معاف کردیا، تو کیا معاف ہوگا؟
2) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بہن کو پہلے مالک بناو، پھر اگر وہ معاف کردے، تو ٹھیک ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ بہن کو زمین کا مالک بنانا کس طرح بنانا ہے؟ اگر سرکاری کاغذات میں اس کے نام کردے تو کیا یہ عمل کافی ہے یا مالک بنانے سے مراد بہن کی اس پر چار دیورای کرنا ہے؟
3) اگر بھائی بہن سے کہدے کہ آپ کا حق وراثت کی زمین کی جتنی قیمت بنتی ہے، میں وہ ادا کروں گا، مجھے فروخت کردو اور بہن راضی ہوجائے، تو پھر کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی وارث اپنے مورث کے فوت ہونے سے پہلے میراث سے دستبرداری اختیار کرتا ہے، تو اس کا شرعا کوئی اعتبار نہیں ہے، اس دستبرادی کے باوجود مورث کی وفات کے بعد اسے اپنا حصہ ملے گا، کیونکہ وراثت شریعت کی طرف سے ایک لازمی حق ہے، وارث کے نہ چاہنے کے باوجود بھی اس کا استحقاق باقی رہتا ہے۔
جہاں تک مورث کی وفات کے بعد کسی وارث کا اپنے حصہ سے دستبرداری اختیار کرنے یا اپنا حق معاف کرنے کا تعلق ہے، تو چونکہ وہ شخص مال میراث میں اپنے حصہ کا حقدار بن چکا ہوتا ہے، اس لئے اگر وہ اپنے حق سے دستبردار ہونا چاہے، تو شرعا اس کی اجازت ہے، البتہ ایسے موقع پر ہمارے معاشرے میں بالخصوص بہنوں کو بہت سے علاقوں میں میراث سے حصہ نہیں دیا جاتا، اور بہنیں بھی بادل ناخواستہ اپنا حق معاف کرنے کا اظہار کردیتی ہیں، یا ان سے معاف کرایا جاتا ہے، (جیسا کہ سوال میں ہے) لہذا ایسے موقع پر ان کی دلی رضامندی (طیب نفس) کا معلوم کرنا مشکل ہے، اس لئے ایسے موقع پر ضروری ہے کہ بہن وغیرہ کو اس کا حصہ اس کے قبضہ میں دیدیا جائے، اس کے بعد اگر وہ اپنی خوشدلی سے واپس کرنا چاہے، تو کرسکتی ہے۔
اس تمہید کے بعد ذیل میں آپ کے سوالات کے جوابات ذکر کیے جارہے ہیں:
1۔ مذکورہ صورت میں چونکہ بھائیوں کی طرف سے معافی کا مطالبہ ہے، اور عموما معاشرتی دباؤ بھی ہوتا ہے، اس لئے غالب امکان ہے کہ وہ خوشی سے دستبردار نہ ہو رہی ہو، اس لئے ایسی صورت میں اس کا حصہ اس کے مالکانہ تصرف میں دیکر اس کے حوالہ کرنا ضروری ہے، اس کے بعد اگر وہ اپنی رضا و خوشی سے واپس کرنا چاہے، تو کرسکتی ہے۔
2۔ مالک بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے مکمل طور پر مالکانہ تصرفات کا حق حاصل ہو جائے، جس طرح چاہے وہ اسے استعمال کرسکے، مثلاََ: اس کو بیچنا چاہے یا کسی کو ہدیہ کرنا چاہے، تو بلا روک ٹوک وہ کرسکے، اتنا کافی ہے۔
باقی سرکاری کاغذات میں اس کے نام کرانا وغیرہ، قانونی تقاضے کی بناء پر ہے، شرعا قبضہ ثابت ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں ہے۔
3۔ اگر بہن اپنی رضامندی سے اپنا حصہ بھائی کو بیچ دے، تو اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تکملۃ رد المحتار: (505/7، ط: دار الفکر)
الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط.
بدائع الصنائع: (244/5، ط: دار الکتب العلمیۃ)
فالتسليم، والقبض عندنا هو التخلية، والتخلي وهو أن يخلي البائع بين المبيع وبين المشتري برفع الحائل بينهما على وجه يتمكن المشتري من التصرف فيه فيجعل البائع مسلما للمبيع، والمشتري قابضا له، وكذا تسليم الثمن من المشتري إلى البائع.
و فیہ ایضاً: (158/5)
معنى القبض هو التمكين، والتخلي، وارتفاع الموانع عرفا وعادة حقيقة.
فقہ البیوع: (405/1، ط: مکتبہ معارف القرآن)
فالذي يظهر أنه لا ينبغي أن يعتبر التسجيل قبضًا ناقلاً للضمان في الفقه الإسلامي، إلا إذا صاحبته التخلية بالمعنى الذي ذكرناه فيما سبق
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی