resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: "جس میت پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نماز پڑھے" حدیث کی تشریح(8818-No)

سوال: کسی بھی جنازہ میں چالیس افراد جنازہ پڑھ لیں یا کسی انسان کے جنازہ میں ات صفیں ہوں تو اس میت کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں، اس میں کتنی صداقت ہے اور کیا یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟

جواب: واضح رہے کہ نمازِ جنازہ میں کثرت جماعت سے میت کی مغفرت اور جنازہ پڑھنے والوں کی میت کے حق میں سفارش اور دعا کاقبول ہونا احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، لہذا کثرتِ جماعت کی وجہ سے مغفرت کی امید کی جاسکتی ہے، البتہ حقوق العباد بغیر ادائیگی اور گناہ کبیرہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے تین قسم کی روایات ملتی ہیں، ذیل میں تینوں روایات کا ترجمہ اور تشریح کے ساتھ ذکر کی جاتی ہیں:
۱۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: جس میت پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نماز پڑھے، جن کی تعداد سو تک پہنچ جائے اور وہ سب اللہ تعالی کے حضور میں اس میت کے لیے سفارش کریں،( یعنی مغفرت و رحمت کی دعا کریں) تو ان کی یہ سفارش اور دعا ضرور قبول ہوگی۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 947)
۲۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو/فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان آدمی کا انتقال ہوجائے اور اس کے جنازے کی نماز ایسے چالیس آدمی پڑھیں، جن کی زندگی شرک سے بالکل پاک ہو، ( اور وہ نماز میں اس میت کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا اور سفارش کریں ) تو اللہ تعالی ان کی سفارش اس میت کے حق میں ضرور قبول فرماتے ہیں۔(سنن أبی داؤدحدیث نمبر: 3170)
۳۔ حضرت مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس مسلمان بندے کا انتقال ہوجائے اور مسلمانوں کی تین صفیں اس کی نماز جنازہ پڑھیں، ( اور اس کے لئے مغفرت و جنت کی دعا کریں) تو ضرور اللہ تعالی اس بندے کے واسطے( مغفرت اور جنت) واجب کردیتا ہے۔
(اس حدیث کی روایت کرنے والے حضرت مرثد یزنی کہتے ہیں کہ )مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ کا یہ دستور تھا کہ جب وہ جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد کم محسوس کرتے، تو اس حدیث کی و جہ سے ان لوگوں کو تین صفوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔(سنن أبی داؤد: حدیث نمبر:3166)
تشریح:
۱۔پہلی حدیث میں سو مسلمانوں کے، دوسری میں چالیس مسلمانوں کے اور تیسری میں تین صفوں کے نماز پڑھنے پر ( مردہ کے لیے ) مغفرت و جنت کی سفارش اور دعا کے قبول ہونے کا ذکر ہے۔
محدثین کرام ؒ نے لکھا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کو پہلے بتایا گیا کہ سو حضرات کے نماز جنازہ پڑھنے پر مغفرت و جنت کی بشارت ہے، پھر تخفیف کر دی گئی اور چالیس کے عدد پر یہ بشارت سنائی گئی اور بعد میں مزید تخفیف کرکے تین صفوں پر یہی خبردی گئی، اگر چہ تعداد چالیس سے بھی کم ہو۔
۲۔جنازے میں لوگوں کی کثرت سے میت کی مغفرت کی امید کی جاسکتی ہے کہ جتنے لوگ زیادہ ہوں گے تو شفاعت کی امید بھی زیادہ ہوگی۔
۳۔ روایات میں بہت سے اعمال کا ذکر ہے، جو گناہوں سے کفارہ اور معافی کا سبب بنتے ہیں، اس سے مراد "صغیرہ گناہ" ہیں، کیونکہ "کبیرہ گناہ" بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے ہیں۔
۴۔احادیث مبارکہ اور فقہائے کرام کی عبارات میں تین صفوں کا ثبوت ہے، سات صفوں کا ذکر احادیث مبارکہ میں نہیں ہے، البتہ سات کا عدد چونکہ طاق ہے، اور طاق عدد کی رعایت رکھنا مستحب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح مسلم: (رقم الحديث: 947، 654/2، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما من ميت تصلي عليه أمة من المسلمين يبلغون مائة، كلهم يشفعون له، إلا شفعوا فيه»

سنن أبی داؤد: (رقم الحديث: 3170، 81/5، ط: دار الرسالة العالمية)
عن ابن عباس، سمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: "ما من مسلم يموت فيقوم على جنازته أربعون رجلا لا يشركون بالله شيئا إلا شفعوا فيه".

سنن أبی داؤد: (رقم الحديث: 3166، 81/5، ط: دار الرسالة العالمية)
عن مالك بن هبيرة، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- "ما من مسلم يموت فيصلي عليه ثلاثة صفوف من المسلمين إلا أوجب".قال: فكان مالا إذا استقل أهل الجنازة جزأهم ثلاثة صفوف، للحديث

شرح النووی علی مسلم: (17/7، ط: دار احیاء التراث العربی)
قوله صلى الله عليه وسلم (ما من ميت يصلي عليه أمة من المسلمين يبلغون مائة كلهم يشفعون له إلا شفعوا فيه) وفي رواية ما من رجل يموت فيقوم على جنازته أربعون رجلا لا يشركون بالله شيئا إلا شفعهم الله فيه وفي حديث آخر ثلاثة صفوف رواه أصحاب السنن قال القاضي قيل هذه الأحاديث خرجت أجوبة لسائلين سألوا عن ذلك فأجاب كل واحد منهم عن سؤاله هذا كلام القاضي ويحتمل أن يكون النبي صلى الله عليه وسلم أخبر بقبول شفاعة مائة فأخبر به ثم بقبول شفاعة أربعين ثم ثلاث صفوف وإن قل عددهم فأخبر به ويحتمل أيضا أن يقال هذا مفهوم عدد ولا يحتج به جماهير الأصوليين فلا يلزم من الإخبار عن قبول شفاعة مائة منع قبول ما دون ذلك وكذا في الأربعين مع ثلاثة صفوف وحينئذ كل الأحاديث معمول بها ويحصل الشفاعة بأقل الأمرين من ثلاثة صفوف وأربعين.

نیل الاوطار للشوکانی: (68/4، ط: دار الحديث)
فيه استحباب تكثير جماعة الجنازة ويطلب بلوغهم إلى هذا العدد الذي يكون من موجبات الفوز، وقد قيد ذلك بأمرين: الأول: أن يكونوا شافعين فيه: أي مخلصين له الدعاء، سائلين له المغفرة. الثاني: أن يكونوا مسلمين ليس فيهم من يشرك بالله شيئا كما في حديث ابن عباس.

مرقاۃ المفاتیح لملا علی القاری: (9/2، ط: دار الکتب العلمیة)
وللإجماع على ما حكاه ابن عبد البر، على أن الكبائر لا تغفر إلا بالتوبة وأن حقوق الآدميين منوطة برضاهم.

الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم: (334/24، ط: دار المنهاج)
لأن الكبائر لا تغفر إلَّا بالتوبة أو بمحض عفو الله تعالى.

مجمع الانھر: (183/1، ط: دار الکتاب العربی)
واعلم أن الأفضل أن تكون الصفوف ثلاثة لقوله - عليه الصلاة والسلام - «من اصطف عليه ثلاثة صفوف من المسلمين غفر له»

رد المحتار:(214/2، ط: دار الفکر)
ويستحب أن يصف ثلاثة صفوف، حتى لو كانوا سبعة يتقدم أحدهم للإمامة، ويقف وراءه ثلاثة ثم اثنان ثم واحد. اه

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

namaz janaz mein / may kasrat e jamat se / say mayyat ki maghfirat se / say mutaliq ahadees mubarka ki tashreh

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees