سوال:
میری والدہ ساری نمازیں پڑھتی ہیں، لیکن ان سے سردیوں میں فجر اور عشاء کا وضو نہیں ہو پاتا، کیونکہ ٹھنڈ سے ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے، گرم پانی دیا جائے تو بھی بہت سردی لگتی ہے، کیا ایسی صورت میں فجر اور عشاء میں وضو کے بجائے تیمم کر سکتی ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ اگر گرم پانی یا وضو کرنے کے بعد جسم کو حرارت پہنچانے کے لیے گرم کپڑا یا کوئی اور سبب جیسے: ہیٹر وغیرہ دستیاب ہو تو ایسی صورت میں سردی کی وجہ سے وضو کے بجائے تیمم کرنے کی اجازت نہیں ہے، البتہ اگر گرم پانی یا گرم کپڑا وغیرہ میسر ہونے کے باوجود پانی سے وضو کرنے والے کو اپنی جان کی ہلاکت یا کسی عضو کے تلف ہوجانے یا بیمار ہوجانے کا غالب گمان ہو تو ایسا شخص تیمم کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (234/1، ط: دار الفکر)
(أو برد) يهلك الجنب أو يمرضه ولو في المصر إذا لم تكن له أجرة حمام ولا ما يدفئه، وما قيل إنه في زماننا يتحيل بالعدة فمما لم يأذن به الشرع، نعم إن كان له مال غائب يلزمه الشراء نسيئة وإلا لا.
(قوله يهلك الجنب أو يمرضه) قيد بالجنب؛ لأن المحدث لا يجوز له التيمم للبرد في الصحيح خلافا لبعض المشايخ كما في الخانية والخلاصة وغيرهما. وفي المصفى أنه بالإجماع على الأصح، قال في الفتح وكأنه لعدم تحقيق ذلك في الوضوء عادة. اه....
أقول: المختار في مسألة الخف هو المسح لا التيمم كما سيأتي في محله - إن شاء الله تعالى - نعم مفاد التعليل بعدم تحقيق الضرر في الوضوء عادة أنه لو تحقق جاز فيه أيضا اتفاقا، ولذا مشى عليه في الإمداد؛ لأن الحرج مدفوع بالنص، هو ظاهر إطلاق المتون.
الفتاوی الھندیۃ: (28/1، ط: دار الفکر)
وإذا خاف المحدث إن توضأ أن يقتله البرد أو يمرضه يتيمم. هكذا في الكافي واختاره في الأسرار لكن الأصح عدم جوازه إجماعا كذا في النهر الفائق والصحيح أنه لا يباح له التيمم. كذا في الخلاصة وفتاوى قاضي خان.
امداد الفتاوی: (کتاب الطھارۃ، 97/1، ط: مکتبہ دار العلوم کراتشی)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی