عنوان: "ستاروں کى مانند صحابہ کرام رضى اللہ عنہم اجمعین" سے گناہوں کے صادر ہونے اور ان پر حدود اور سزائیں جاری ہونے کی وجہ(8857-No)

سوال: حدیث میں آتا ہے کہ سارے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں تو پھر مختلف صحابہ پر سزائیں اور حدود کیوں جاری ہوئیں؟ براہ کرم اس کا جواب عنایت فرمادیں۔

جواب: جواب سے پہلے دو باتوں کا بطور تمہید سمجھنا ضروری ہے:
۱) واضح رہے کہ جمہورِ اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام بنی نوعِ انسان میں انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد اگر کوئى سب سے افضل اور برگزیدہ جماعت ہے تو وہ نبى اکرم ﷺکے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین كى جماعت ہے۔ یہ وہ خوش قسمت جماعت ہے جس کی تعلیم وتربیت اور تصفیہ و تزکیہ براهِ راست جنابِ نبىِ كريم ﷺ کے ہاتھوں ہوا ہے۔ آپ ﷺ کے فیضِ تربیت سے ان میں جو ایمانى کیفیات پیدا ہوئیں، اللہ تعالى نے قرآنِ کریم میں جا بجا ان کا تذکرہ فرما کر ان کے لیےاپنى رضا وخوشنودى کا اعلان فرما دیا ہے۔ ارشادِ بارى تعالى ہے، جس کا ترجمہ ہے:"ليكن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کى محبت ڈال دى ہے، اور اسے تمہارے دلوں میں پر کشش بنا دیا ہے، اور تمہارے اندر کفر کى اور گناہوں اور نافرمانى کى نفرت بٹھا دى ہے۔ ايسے ہى لوگ ہیں جو ٹھیک ٹھیک راستے پر آ چکے ہیں"۔(سورۃالحجرات:آیت نمبر:7)
يہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش کر دیا ہے، اور اپنى روح سے ان کى مدد کى ہے۔
(سورۃالمجادلۃ:آیت نمبر:22)
اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے، اور جنہوں نے نیکى کے ساتھ ان کى پیروى کى، اللہ ان سب سےراضى ہو گیا ہے، اور وہ اس سے راضى ہیں۔ (سورۃالتوبۃ: آیت نمبر:100)
يوں اللہ نے بھلائى کا وعدہ ان سب سے کر رکھا ہے۔(سورۃالحدید: آیت نمبر:10)
مذكوره بالا آيات سے یہ بات واضح ہوتى ہے کہ صحابہ کرام رضى اللہ عنہم اجمعین پر جنابِ نبیِ کریم ﷺ کی تربيت كا یہ اثر تھا کہ شریعت کے تقاضوں پر عمل کرنا ان کی طبیعت بن چکا تھا، چنانچہ ایمان اور اعمالِ صالحہ کی محبت ان کے دلوں میں رچ بس گئی تھی اور کفر، شرک اور فسق و فجور سے حد درجہ کی نفرت ان كى طبيعت كا حصہ بن چکى تھى۔ اس اعتبار سے یہ حضرات گناہوں سے اگرچہ معصوم نہ تھے، لیکن محفوظ ضرور تھے۔ محفوظ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان سے گناہ صادر ہونے کا امکان فطرتاً ہى ختم ہو گیا تھا، بلکہ امکان تھا، لیکن گناہ صادر ہونے سے حفاظت رہتی تھی،یہی وجہ ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بعض گناہ بھى سرزد ہوئے ہیں۔
۲) چند گمراہ فرقوں کے علاوہ تمام امت محمدیہ کا اجماعی عقیدہ ہے کہ "الصحابۃ کلہم عدول " (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بلاتفریق سب کے سب عادل ہیں )۔ فقہاء و محدثین نے عدالت کا جو مفہوم بیان فرمایا ہے، اس کو عام اصطلاح میں " تقوىٰ "سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ عادل اس عاقل بالغ مسلمان کو کہا جاتا ہے جو کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرتا ہو اور صغیرہ گناہوں کا عادى نہ ہو اور ان پر اصرار نہ کرتا ہو، اور جس میں یہ صفات نہ ہوں، وہ "ساقط العدالۃ" اور "فاسق " کہلاتا ہے۔
بظاہر " عدالت" کا مذکورہ بالا مفہوم "الصَّحَابَۃُ کُلُّہُمْ عُدُولٌ "کے اجماعی عقیدہ کے منافى ہے، کیونکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے گناہ صادر ہوئے ہیں تو اس اعتبار سے ان کى عدالت کیسے برقرار رہ سکتى ہے؟
جمہور علمائے امت نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اگر کسى سے کبیرہ گناہ سرزد ہو جائے تو اس کى "عدالت" ساقط ہو جاتى ہے، جب تک وه اس گناہ سے سچی توبہ نہ کر لے، اس وقت تک اس کا فسق باقى رہتا ہے، لیکن توبہ کرنے کے معاملے میں عام افرادِ امت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ایک خاص امتیازى فرق ہے، وہ یہ کہ اگر امت کا کوئی عام فرد گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے اور وہ توبہ کر لیتا ہے تو اس کی توبہ کے متعلق یہ ضمانت نہیں ہے کہ آیا اس کی توبہ قبول ہو گئى ہے یا نہیں؟ یا اس کی نیکیوں کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیا گیا ہے یا نہیں؟ مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معاملہ ایسا نہیں تھا، اول تو ان سے گناہ کا صادر ہونا مشکل تھا، لیکن اگر کبھى ان سے کوئى گناہ سرزد ہوا بھى تو ان کے خوف وخشیت کا یہ عالم تھا کہ وہ بے چین ہو جاتے تھے، وہ اس گناہ سے صرف زبانى توبہ کرنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ حضرات اپنے آپ کو بڑی سے بڑی سزا کے لیے پیش کر دیتے تھے، کوئی اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیتا تھا، کوئی اپنے آپ کو سنگسار کیے جانے کے لیے آپ ﷺکی خدمت اقدس میں بار بار آکر درخواست کرتا تھا کہ مجھے اس گناہ سے پاک فرما دیں، اس گناہ کی جو بھی سزا ہو، میں اس کے لیے تیار ہوں، پھر جب تک ان کو اپنی توبہ قبول ہونے کا اطمینان نہ ہو جاتا، انہیں صبر نہ آتا تھا، بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو ایسے تھے کہ جن کی توبہ قبول ہونے کے لیے وحی نازل ہوئی اور ان کی توبہ کی قبولیت کا اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما کر قیامت تک کے لیے قرآن کریم میں محفوظ فرما دیا، رجم کى سزا کے لیے حضرت ماعز اسلمى رضی اللہ عنہ اور امرأۃ غامدیہ رضی اللہ عنہا کا بار بار آنحضرت ﷺکى خدمت میں جاکر اپنے گناہ کا اعتراف کرنا اور پھر سزا جاری ہونا، اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ان سے اگرچہ بشری تقاضے کی وجہ سے گناہ صادر ہوئے تھے، لیکن انہوں نے اس کى تلافى کے لیے جو توبہ کی، اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ وہ توبہ نہ صرف ان کے لیےکافی تھی، بلکہ ان کے علاوہ لوگوں پر اگر وہ توبہ تقسیم کی جاتی تو ان کے لیے بھی کافی تھی، پھر آپ ﷺ نے ان کو جنت کی بشارت بھی سنائی، اس اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے گناہ کے صادر ہونے اور امت کے کسی فرد سے گناہ کے صادر ہونے اور دونوں کی توبہ اور قبولیتِ توبہ میں واضح فرق ہے، اسی لیے قرآن پاک میں اللہ تعالی نے تمام صحابہ کرام کے لیے اپنی رضا کا اعلان فرمادیا ہے، لہذا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گناہ کو عام افراد امت کے گناہ کی طرح قرار دے کر صحابہ کرام کی شان و مرتبہ میں تنقیص کرنا سراسر ظلم اور نا انصافی ہے۔
غرض یہ کہ بحیثیت مجموعى اگر صحابہ کرام کے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اول تو ان سے بڑے گناہوں کا صدور مشکل تھا، نیز وہ گناہ جن کے نتیجے میں سزا جارى ہونے کے واقعات احادیث میں بیان ہوئے ہیں، گنتى کے چند ایک واقعات ہیں، اس پر بھى ان کى توبہ کى قبولیت كا پروانہ انہیں ان کى زندگى ہى میں مل چکا تھا، لہذا وہ اس گناہ سے پاک صاف ہوچکے تھے، مزید یہ کہ اللہ تعالى عالم الغیب ہیں، اللہ تعالی کے علم ازلى میں یہ بات تھى کہ بعض صحابہ کرام سے گناہ سرزد ہوں گے، اس کے باوجود قرآنِ کریم میں اللہ تعالى کا تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو اپنى رضائے کاملہ سےنوازنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے "عادل" ہونے کی دلیل ہے، لہذا"الصحابۃ کلہم عدول " کا عقیدہ درست ہے، گناہ سے ان کى عدالت ساقط نہیں ہوئى۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر سزا جارى ہونے کے واقعات کى عمدہ توجیہ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے فضائل ومناقب اپنى جگہ مسلَّم ہیں، لیکن پھر بھى ایک عام امتى کو اس پر تعجب ہوتا ہے کہ اگرچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معصوم نہیں تھے، مان لیا کہ ان سے گناہوں کے صادر ہونے کا امکان تھا، لیکن اتنے بڑے گناہ صادر ہونے کى توقع نہیں کى جا سکتى کہ جس کے نتیجے میں ان پر شرعى سزائیں جارى ہوئیں، ان گناہوں کے ارتکاب کى تو ایک عام مسلمان سے توقع نہیں کى جا سکتى ہے، چہ جائیکہ وہ گناہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جیسى برگزیدہ اور پاکیزہ ہستیوں سے صادر ہوں؟
اس اشکال کا جواب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوى نور اللہ مرقدہ نے اپنى کتاب "شریعت وطریقت کا تلازم" میں بڑے تسلی بخش طریقے سے دیا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اقدس ﷺ کی ذات اور ان کے طرز ِعمل کو ہمارے لیے دین پر عمل کرنے کا نمونہ قرار دیا ہے، جب آپﷺہمارے لیے نمونہ ٹھہرے تو آپ ﷺنے شریعت کے احکامات پر خود عمل کر کے دکھلایا، اس سلسلے میں شریعت کے احکامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اللہ تعالٰی نے آپ ﷺسے وہ تمام کام کروائے جو آپ کی شانِ نبوت کے منافی نہ تھے، مثلاً: ایک موقع پر آپ ﷺسے فجر کی نماز قضا ہو گئی، جس سے قضا نماز کا حکم معلوم ہوا، اسی طرح نماز میں آپ سے بھول ہو جانا، جس کے نتیجے میں سجدہ سہو کے احکامات کی تعلیم دی گئی اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "میں خود نہیں بھولتا ہوں، بلکہ مجھے تو بھلوایا جاتا ہے، تاکہ میں اس بھولنے کے موقع پر جو شریعت کا حکم ہو، اس کا طریقہ بتلاؤں"۔
لیکن شریعت کے بعض احکام ایسے تھے، جن پر عمل کرانا آپ ﷺکی شان کو زیبا نہیں تھا، لیکن امت کو ان احکامات کی تعلیم دینا شریعت کی تکمیل کے لیے ضروری بھی تھا، مثلاً: شرعی سزائیں جن پر اگر آپ ﷺ کے زمانے میں عمل نہ ہوتا تو بعد کے زمانے میں لوگ ان سزاؤں کے جاری کرنے میں پس وپیش سے کام لے سکتے تھے، چنانچہ ان سزاؤں کے جاری کرنے کے لیے من جانب اللہ تکوینی طور پر بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بڑے بڑے گناہ صادر کروائے گئے، تاکہ احکام شریعت کی تکمیل ہو، چنانچہ ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو گناہ کیے، وہ دیکھنے میں تو انہیں کا فعل تھا، لیکن جس طرح رضاکارانہ طور پر انہوں نے اپنے آپ کو سزا جاری کیے جانے کے لیے پیش کیا، اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان سے یہ گناہ تکوینی طور پر کروائے گئے، جس کے نتیجے میں وہ اپنے آپ کو سنگسار ہونے کے لیے، ہاتھ کٹوانے اور کوڑے لگوانے کے لیے تیار ہو گئے، چنانچہ جہاں ان کی توبہ قبول ہوئی، وہیں شریعت کے احکامات کو عملی جامہ بھی مل گیا، گویا کہ وہ اس آیت کا مصداق بنے "فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ " (اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا)۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین "معصوم عن الخطاء " نہیں تھے، لیکن گناہوں سے محفوظ ضرور تھے جو گناہ ان سے سرزد ہوئے، اس کے باجود اللہ تعالیٰ کا ان سے راضی ہونے کا اعلان فرمانا، ان کی توبہ کے لیے کافی ہے۔ نیز انہوں نے ان گناہوں سے ایسی توبہ کی تھی کہ دنیا میں ہی وہ گناہوں سے پاک صاف ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے گناہ سرزد ہونے کے جو واقعات ہیں، وہ گنتی کے چند ایک واقعات ہیں، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان سے تکوینی طور پر ایسے افعال صادر کروائے گئے، تاکہ شریعت کے احکامات کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، لہذا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین امت کے لیے آسمانِ ہدایت کے روشن ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی بھی اقتدا کی جائے گی، اسے اللہ ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرما دیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تاريخ المفضل بن غسان الغلابي كما في الفتح لابن رجب: (باب الأذان بعد ذهاب الوقت، 106/5)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الْمُبَارَكِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «إِنَّمَا أُنَسَّى أَوْ أَسْهُو لِأَسُنَّ».

موطأ الإمام مالك كما في رواية يحيى: (العمل في السهو، رقم الحدیث: 264)
عن مالك أنه بلغه: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «إِنِّي لَأَنْسَى أَوْ أُنَسَّى لِأَسُنَّ»

صحيح ابن حبان: (407/6)
قال أبو حاتم:...العلة في سهو النبي صلى الله عليه وسلم في صلاته أنه صلى الله عليه وسلم بعث معلما قولا وفعلا، فكانت الحال تطرأ عليه في بعض الأحوال، والقصد فيه إعلام الأمة ما يجب عليهم عند حدوث تلك الحالة بهم بعده صلى الله عليه وسلم»

شرح الشفا: (269/2)
"(نعم) ليس نسيانه كنسيان غيره من كل وجه (بل حالة النسيان والسهو) أي نسيانه وسهوه (هنا) أي في هذا المحل بخصوصه (في حقه عليه الصلاة والسلام سبب إفادة علم) لأمته (وتقرير شرع) لملته (كما قال عليه الصلاة والسلام) في حديث الموطأ بلاغا لم يعرف وصله (إني لأنسى) بفتح الهمزة والسين أي بإنسائه سبحانه كما قال تعالى فلا تنسى إلا ما شاء الله انساءك إياه (أو أنسى) بصيغة المفعول مشددا ويجوز مخففا أي ينسيني الله تعالى (لأسن) يفتح الهمزة وضم السين وتشديد النون أي لأبين لكم ما يفعله أحد منكم نسيانا لتأنسوا بي وتقتدوا بفعلي (بل قد روي لست أنسى) أي حقيقة (ولكن أنسى) بصيغة المجهول كما مر (لأسن) وهذا نظير قوله تعالى وما رميت إذ رميت ولكن الله رمى إيماء إلى مقام الجمع (وهذه الحالة) أي من نسيانه ليسن (زيادة له في التبليغ) أي تبليغ الرسالة (وتمام عليه في النعمة) حيث أمر الأمة بأن يقتدوا به فيما صدر عنه على جهة السهو والغفلة ولعل فيه إيماء إلى قوله تعالى ويتم نعمته عليك".

مستفاد از مقام صحابہ رضی اللّٰہ عنہم، مؤلفہ: مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ: (ص: 55- 57)

مستفاد از شریعت و طریقت کا تلازم، مؤلفہ: شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ: (ص: 9- 13)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 832 Nov 28, 2021
agar sahaba karam razi Allahho anho ajmaeen sitaro / stars ki manind he / hain to un per / par sazaen / had / sazaein kio jari hoen?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.