resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: پتھر میں کیڑے کو رزق ملنے اور اس کے تسبیح پڑھنے کا واقعہ (8866-No)

سوال: السلام علیکم، محترم مفتی صاحب ! کیا ایسی روایت موجود ہے کہ ”حضرت موسی علیہ السلام نے پتھر پر لاٹھی ماری، جس سے پتھر دو ٹکڑے ہو گئے اور اس سے ایک کیڑا نکلا، جس کے منہ میں تروتازہ سبز پتہ تھا"۔ برائے کرم جواب عنایت فرما دیں، دعا گو رہوں گا۔

جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت باوجود کوشش کے حدیث کی کسی مستند و معتبر کتاب میں حدیث کی کسی بھی قسم (صحیح، حسن، ضعیف وغیرہ) وغیرہ کسی بھی شکل میں نہیں ملی،لہذااس واقعے کی نسبت جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف کرنادرست نہیں ہے، البتہ جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کیے بغیر وعظ و نصیحت کے طور پر بیان کرنے کی گنجائش ہے۔اس واقعے کا ترجمہ، ماخذ اور اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ:روایت کی گئی ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام پر جب وحی نازل ہوئی، تو انہیں اپنے گھر والوں کی فکر لاحق ہوئی، (کہ ان کی کفالت کا کیا ہوگا؟) تو اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی چٹان پر دے ماریں، (جب انہوں نے ایسا ہی کیا) تو چٹان پھٹ گئی اور اس میں سے دوسری چٹان نکلی، پھر اپنی لاٹھی چٹان پر ماری، تو وہ چٹان بھی پھٹ گئی، پھر(تیسری مرتبہ)اپنی لاٹھی چٹان پر ماری، تو وہ چٹان بھی پھٹ گئی، تو اس میں سے چیونٹی کی طرح کا ایک کیڑا نکلا اور اس کے منہ میں کھانے کی کوئی چیز تھی، جو اس کے غذا کے قائم مقام تھی اور موسی علیہ السلام کی سماعت سے پردہ ہٹا دیا گیا، تو انہوں نے کیڑے کو یہ کہتے سنا: " سبحان من يراني، ويسمع كلامی ويعرف مكاني، ويذكرني ولا ينساني" یعنی پاک ہے وہ ذات جو مجھے دیکھتا ہے اور میری بات سنتا ہے اور میری جگہ کو جانتا ہے اور مجھے یاد رکھتا ہے اور بھولتا نہیں ہے۔( تفسیر کبیر"(17/318)
ماخذالقصۃ:
۱۔سوال میں ذکرکردہ واقعے کو’’امام رازی‘‘(م 606ھ)نے "تفسیر کبیر"(17/318،ط:داراحیاء التراث العربی) میں "سورہ ھود" کی آیت نمبر:6 کی تفسیر کے تحت بغیر سند کے بیان کیا ہے۔
۲۔ شیخ نظام الدين نیشاپوری(م 850ھ) نے’’غرائب القرآن‘‘ (4/7، ط: دار الكتب العلميه)میں ذکر کیا ہے۔ ۳۔خطيب الشربينی (م 977ھ) نے’’السراج المنير ‘‘(2/52، ط: المکتبۃ الحقانیہ) میں ذکر کیا ہے۔
۴۔شیخ اسماعیل حقی (م1127ھ)نے’’روح البيان ‘‘(4/97، ط: دار الفكر) میں ذکر کیا ہے۔
مذکورہ واقعے کی اسنادی حیثیت:
اس واقعے کو مفسرین کرام ؒ نے بغیر سند کے ذکر کیا ہے اور احادیث مبارکہ کی کسی کتاب میں بہت تلاش کے باوجود نہیں ملا، لہذا اس واقعے کو حدیث ِرسول ﷺ کے طور پر بیان کرنا درست نہیں ہے، البتہ چونکہ یہ واقعہ اللہ تعالی کے شواہد قدرت کے مضمون پر مشمل ہے، اور اس کا مضمون قرآن و سنت سے متضاد بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کوئی شرعی مسئلہ ثابت ہوتا ہے، اس لیے اس واقعے کو رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کیے بغیر وعظ و نصیحت کے طور پر بیان کرنے کی گنجائش ہے۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(۱) تفسیر کبیر:(17/318،ط:داراحیاء التراث العربي)
روي أن موسى عليه السلام عند نزول الوحي إليه تعلق قلبه بأحوال أهله، فأمره الله تعالى أن يضرب بعصاه على صخرة فانشقت وخرجت صخرة ثانية. ثم ضرب بعصاه عليها فانشقت وخرجت صخرة ثالثة، ثم ضربها بعصاه فانشقت فخرجت منها دودة كالذرة وفي فمها شيء يجري مجرى الغذاء لها، ورفع الحجاب عن سمع موسى عليه السلام فسمع الدودة تقول: سبحان من يراني، ويسمع كلامي، ويعرف مكاني، ويذكرني ولا ينساني.
نفس الواقعة ذكرها نطام الدين النيسابوري في ’’ غرائب القرآن‘‘ (4/7) ‘‘ والشربيني في ’’السراج المنير ‘‘(2/52) وإسماعيل حقي في ’’روح البيان ‘‘(4/97)

(2)الجامع لأخلاق الراوي و آداب السامع للخطيب البغدادي: (2/213، ط: مكتبة المعارف)
وأما أخبار الصالحين وحكايات الزهاد والمتعبدين ومواعظ البلغاء وحكم الأدباء فالأسانيد زينة لها وليست شرطا في تأديتها

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

pathar me / may kere / insect to rizq milne / milnay or us ke / kay tasbeeh parhne ka waqea / waqya

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees