عنوان: مرحوم کے ورثاء میں صرف بیوی ہو، تو مرحوم کی بقیہ میراث کا حقدار کون ہوگا؟(8882-No)

سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
گزارش عرض ہے کہ مجھے قرآن وسنت کی روشنی میں آپ سے ایک تحریری فتویٰ درکار ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ میں ایک بیوہ خاتون ہوں اور 4اپریل 2021 کو میرے شوہر کا انتقال 68 سال کی عمر میں ہوا ہے اور ان کےوالدین کا انتقال میرے شوہر کی وفات سے کافی سالوں پہلے ہوچکا تھا، اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہماری کوئی اولاد بھی نہیں ہے اور میرے مرحوم شوہر اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے،لہذا اب میرے علاوہ اپنے شوہر کے ترکہ کا کوئی بھی قانونی وارث نہیں ہے۔
میرے مرحوم شوہر کے نام سے 2 قومی بچت کی اسکیم بہبود سیونگ سرٹیفیکٹ ہیں، جن کی مالیت 27 لاکھ 50 ہزار روپے ہے اور ان سرٹیفیکٹ کے منافع سے ہمارا ماہانہ گھر کا خرچ چلتا ہے۔
اب میں یہ رقم اپنے شوہر کی وفات کے بعد اپنے نام ٹرانسفر کرانا چاہتی ہوں، تاکہ میرا گزارہ اس کے منافع سے ہوسکے۔ بینک کے قوانین کے مطابق مجھے شرعی فتویٰ دیگر ضروری کاغذات کے ساتھ جمع کروانا ہے، تاکہ مطلوبہ ٹرانسفر کی کاروائی عمل میں لائی جاسکے، کیا مندرجہ بالا صورتِ حال میں میں شرعی طور پر ساری رقم اپنے نام ٹرانسفر کرواسکتی ہوں؟ برائے مہربانی تحریری فتویٰ سے رہنمائی فرمائیں، عین نوازش ہوگی۔ جزاک اللہ خیرا، والسلام

جواب: واضح رہے کہ مفتی غیب نہیں جانتا، بلکہ وہ سوال کے مطابق جواب دیتا ہے، سوال کے سچ یا جھوٹ کی ذمہ داری سائل پر ہوتی ہے، غلط بیانی کے ذریعہ اپنے حق میں فتوٰی حاصل کرلینے سے حرام چیز حلال نہیں ہوجاتی، بلکہ حرام معاملہ بدستور حرام ہی رہتا ہے اور غلط بیانی کا مزید وبال اسی پر ہوتا ہے۔
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً بیوی کے علاوہ شوہر کا کوئی اور وارث رشتہ دار موجود نہیں ہے، تو اس کا کل مال بیوی کو دیا جائے گا۔
اصولاً تو اولاد اور باقی رشتے دار نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو کل مال کا ایک چوتھائی ملتا ہے، لیکن پوچھی گئی صورت میں چونکہ بیوہ کے علاوہ مرحوم کا کوئی اور وارث موجود نہیں ہے، اس لیے متاخرین فقہاءؒ کے قول کے مطابق باقی مال بھی بیوہ کو ملے گا، اس طرح بیوہ اپنے شوہر کے کل متروکہ مال کی وارث کہلائے گی۔
البتہ سوال میں ذکر کردہ اسکیم میں جمع کردہ اصل رقم کے علاوہ حاصل ہونے والی سودی رقم کو استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ہے، لہذا اس سودی رقم کو وصول ہی نہ کیا جائے، اور اگر وصول کر لیا جائے، تو اسے بغیر ثواب کی نیت سے صدقہ کرنا ضروری ہے۔
نوٹ: مکرر واضح ہو کہ اس صورت میں بہت دور کے رشتے دار بھی عصبہ یا ذوی الارحام بن کر وارث ہو سکتے ہیں، اس لیے سب سے پہلے مرحوم کے دیگر ورثاء اور رشتہ داروں کی پوری تحقیق و تفتیش ضروری ہے، کوشش کے باوجود اگر کوئی اور شرعی وارث نہ مل سکے، تو پھر مذکورہ بالا جواب پر عمل کیا جائے گا۔
اس کے باوجود بعد میں کسی زمانہ میں اگر شوہر کا کوئی اور وارث ثابت ہوجاتا ہے، تو وہ مرحوم کی وراثت میں اپنے حصہ کا حقدار ہوگا، اور اس صورت میں بیوہ جو کل مال لے چکی ہو گی، اس کے ذمہ اس وارث کے حصہ کی ادائیگی کرنا لازم ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (788/6، ط: دار الفکر)
(قوله: وفي الأشباه إلخ) قال في القنية: ويفتى بالرد على الزوجين في زماننا لفساد بيت المال، وفي الزيلعي عن النهاية ما فضل عن فرض أحد الزوجين يرد عليه... وقال في المستصفى: والفتوى اليوم بالرد على الزوجين، وهو قول المتأخرين من علمائنا، وقال الحدادي: الفتوى اليوم بالرد على الزوجين، وقال المحقق أحمد بن يحيى بن سعد التفتازاني: أفتى كثير من المشايخ بالرد عليهما إذا لم يكن من الأقارب سواهما لفساد الإمام وظلم الحكام في هذه الأيام...
وفي المستصفى والفتوى اليوم على الرد على الزوجين عند عدم المستحق لعدم بيت المال إذ الظلمة لا يصرفونه إلى مصرفه.... أقول: ولم نسمع أيضا في زماننا من أفتى بشيء من ذلك ولعله لمخالفته للمتون فليتأمل، لكن لا يخفى أن المتون موضوعة لنقل ما هو المذهب وهذه المسألة مما أفتى به المتأخرون على خلاف أصل المذهب للعلة المذكورة كما أفتوا بنظير ذلك في مسألة الاستئجار على تعليم القرآن مخالفين لأصل المذهب، لخشية ضياع القرآن، ولذلك نظائر أيضا، وحيث ذكر الشراح الإفتاء في مسألتنا فليعمل به، ولا سيما في مثل زماننا فإنه إنما يأخذه من يسمى وكيل بيت المال، ويصرفه على نفسه وخدمه ولا يصل منه إلى بيت المال شيء. والحاصل: أن كلام المتون إنما هو عند انتظام بيت المال وكلام الشروح عند عدم انتظامه، فلا معارضة بينهما فمن أمكنه الإفتاء بذلك في زماننا فليفت به ولا حول ولا قوة إلا بالله.

و فیه ایضاً: (مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، 99/5، ط: دار الفکر)
والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه.

الدر المختار مع رد المحتار: (385/6- 386، دار الفکر)
وعلى هذا لو مات مسلم وترك ثمن خمر باعه مسلم لا يحل لورثته كما بسطه الزيلعي وفي الأشباه الحرمة تنتقل مع العلم إلا للوارث إلا إذا علم ربه.
قلت: ومر في البيع الفاسد لكن في المجتبى مات وكسبه حرام فالميراث حلال ثم رمز وقال لا نأخذ بهذه الرواية وهو حرام مطلقا على الورثة فتنبه.
(قوله إلا إذا علم ربه) أي رب المال فيجب على الوارث رده على صاحبه (قوله وهو حرام مطلقا على الورثة) أي سواء علموا أربابه أو لا فإن علموا أربابه ردوه عليهم، وإلا تصدقوا به كما قدمناه آنفا عن الزيلعي.
أقول: ولا يشكل ذلك بما قدمناه آنفا عن الذخيرة والخانية لأن الطعام أو الكسوة ليس عين المال الحرام فإنه إذا اشترى به شيئا يحل أكله على تفصيل تقدم في كتاب الغصب بخلاف ما تركه ميراثا فإنه عين المال الحرام وإن ملكه بالقبض والخلط عند الإمام فإنه لا يحل له التصرف فيه أداء ضمانه، وكذا لوارثه ثم الظاهر أن حرمته على الورثة في الديانة لا الحكم فلا يجوز لوصي القاصر التصدق به ويضمنه القاصر إذا بلغ تأمل (قوله فتنبه) أشار به إلى ضعف ما في الأشباه ط.

کذا فی تبویب فتاوىٰ دار العلوم كراتشی: رقم الفتوی: 72/1944

کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: رقم الفتویٰ: 143710200033

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1028 Dec 08, 2021
marhom ke / kay wurasa me / may sirf biwi / wife ho to marhom ki baqya meras / miraas ka haqdar kon hoga?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.