سوال:
مفتی صاحب! میں چاہتا ہوں کہ اپنا چینل بنا کر طلبہ کے لئے اس میں اکاونٹس کے لیکچر ڈالوں، اس میں میری تصویر نہیں آئے گی، کیا میرے لئے اس چینل سے حاصل ہونے والی کمائی جائز ہوگی یا نہیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر یوٹیوب چینل پر اپلوڈ کیا جانے والا مواد جائز اور فائدہ مند معلومات پر مشتمل ہو، اور اس پر چلنے والے اشتہارات خواتین کی تصاویر، میوزک اور دوسرے شرعی منکرات پر مشتمل نہ ہوں، تو ایسی ویڈیوز سے حاصل ہونے والی آمدنی کا استعمال جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقہ البیوع: (325/1، ط: معارف القرآن)
ولكن معظم استعمال التلفزيون في عصرنا في برامج لاتخلو من محظور شرعي، وعامة المشترين يشترونه لهذه الأغراض المحظورة من مشاهدة الأفلام والبرامج الممنوعة، إن كان هناك من لا يقصد به ذلك. فبما أن غالب استعماله في مباح ممكن فلا نحكم بالكراهة التحريمنية في بيعه مطلقا، إلا إذا تمحض لمحظور، ولكن نظرا إلى أن معظم استعماله لا يخلو من كراهة تنزيهية . وعلى هذا فينبغي أن يتحوط المسلم في اتخاذ تجارته مهنة له في الحالة الراهنة إلا إذا هيأ الله تعالی جوا يتمحض أو يكثر فيه استعماله المباح۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی