عنوان: مدت رضاعت سے پہلے دودھ چھڑانا(8928-No)

سوال: مفتی صاحب ! کیا والد کے لئے جائز ہے کہ وہ بچہ کو ڈبے کا دودھ پلوائے،اور والدہ کو دودھ پلانے سے روک دے؟ کیا اس میں بچے کی حق تلفی نہیں ہوگی؟

جواب: یاد رہے کہ نابالغ بچوں کا نفقہ والد پر لازم ہے، اگر بچہ نومولود ہو، اور دودھ پیتا ہو، تو اس کے دودھ وغیرہ کا انتظام کرنا بھی والد کے ذمہ ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مدت رضاعت بیان کی ہے، جس کے مطابق ماں بچے کو دوسال کی مدت تک اپنا دودھ پلا سکتی ہے، یہ امر وجوبی نہیں ہے، یعنی پورے دو سال تک دودھ پلانا لازم نہیں ہے، بلکہ اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے مدت رضاعت (دو سال) پوری ہونے سے پہلے ماں کا دودھ چھڑا دیں اور اس کی جگہ کوئی متبادل غذا مثلاً ڈبے وغیرہ کا دودھ دینا شروع کردیں، تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
البتہ اگر دودھ چھڑانے کے بارے میں میاں بیوی میں اختلاف ہوجائے، اور ماں بچے کو دودھ نہ پلانا چاہے، یا ماں کمزور ہو اور بچے کو دودھ پلانے سے اس کی صحت خراب ہو جاتی ہو، تو اس کو دودھ پلانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، بلکہ والد بچے کے لئے متبادل انتظام کرے گا۔
لیکن اگر بچے کی غذا کا مناسب انتظام نہ ہوسکے، یا وہ کسی اور کا دودھ نہیں لیتا، اور نہ ہی کوئی اور دودھ پیتا ہے، اور ماں کو دودھ پلانے میں کوئی عذر نہ ہو، تو اس صورت میں ماں کے ذمہ بچے کو دودھ پلانا لازم ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرہ، الآیۃ: 233)
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌo

الجامع لاحکام القرآن للقرطبی: (159/3، ط: مکتبہ رشیدیہ)
قوله تعالى ( لا تضار والدة بولدها ولا مولود له بولدہ) المعنى: لا تأبى الأم أن ترضعه إضراراً بأبيه أو تطلب أكثر من أجر مثلها ، ولا يحل للأب أن يمنع الأم من ذلك مع رغبتها في الإرضاع ؛ هذا قول جمهور المفسرين۔

الھدایہ: (447/2، ط: مکتبہ رحمانیہ)
و نفقۃ الاولاد الصغار علی الاب، لا یشارکہ فیھا احد، کما لا یشارکہ فی نفقۃ الزوجۃ، و ان کان الصغیر رضیعا فلیس علی امہٖ ان ترضعہ۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 677 Dec 17, 2021
mudat e razaat se / say pehle / pehley doodh / milk chorana

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.