عنوان: اسکول ٹیچر کا بچوں کی غیر موجودگی میں تنخواہ لینے کا حکم(8946-No)

سوال: مفتی صاحب ! جب آدمی کی ڈیوٹی کسی دیہات کے سکول میں ہو اور کوئی پڑھا بھی نہ رہا ہو، اس علاقہ میں لوگ سال میں 2 یا 3 ماہ رہتے ہوں، وہاں بغیر ڈیوٹی کے تنخواہ لینا کیسا ہے؟

جواب: اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:
1۔ ڈیوٹی کے اوقات میں استاد حاضر ہو، چاہے بچے ہوں یا نہ ہوں، ایسی صورت میں استاد کے لیے تنخواہ لینا جائز ہے۔
2۔ ڈیوٹی کے اوقات میں استاد حاضر نہ ہو، ایسی صورت میں تنخواہ لینا جائز نہیں، البتہ گورنمنٹ کو ساری صورت حال کا علم ہو اور اس کے باوجود تنخواہ دی جائے، تو پھر استاد کے لیے تنخواہ کا لینا جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

شرح المجلۃ للاتاسی: (المادۃ: 568، 670/2، مکتبہ رشیدیہ)
- لو استؤجر استاذ لتعلیم علم او صنعۃ وسمیت الاجرۃ فان ذکرت مدۃ انعقدت الاجارۃ صحیحۃ علی المدۃ حتی ان الاستاذ یستحق الاجرۃ بکونہ حاضرا ومھیئا للتعلیم، تعلم التلمیذ او لم یتعلم۔۔۔ الخ
قال فی شرح ھذہ المادۃ:
ویظھر لی انہ انما یشترط ذکر المدۃ لصحۃ الاجارۃ اذا کان الاستاذ اجیرا خاصا بان اشترط علیہ ان لا یعلم فی تلک المدۃ احدا من غیر من استؤجر لتعلیمہ فیصیر المعقود علیہ منفعۃ الاستاذ فی ذلک الوقت، فبمجرد حضورہ وتھیئۃ نفسہ للتعلیم یستحق الاجر المسمی حصل التعلیم فعلا او لا۔۔۔

قرة عين الأخيار لتكملة رد المحتار: (445/8)
لا جبر على المتبرع على إنهاء ما تبرع به.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 514 Dec 20, 2021
school teacher ka bacho / bachon / children ki ghair mojodgi me / mein / may tankhwah / sallary lene / leney ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.