سوال:
مفتی صاحب ! اس حدیث کی تصدیق فرمادیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم کسی شخص کو مسجد جانے کا عادی دیکھو تو اس کے ایماندار ہونے کی گواہی دو-(ترمذی 3093)
سورۃ التوبہ آیت نمبر 18 میں اللہ و سبحانہ تعالی کا ارشاد ہے: حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں، جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ روایت ’’ضعیف‘‘ہے، البتہ چونکہ اس روایت کا تعلق فضائل اعمال سے ہے اور فضائل کے باب میں اس قسم کی روایت قابلِ قبول ہوتی ہے، لہذا اس روایت کو ضعف کی صراحت کےساتھ بیان کیا جاسکتا ہے۔
اس روايت كا ترجمہ ،تخریج اوراسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ:حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم کسی شخص کو مسجد میں پابندی سے آتے جاتے دیکھو، تو اس کے ایمان کی گواہی دو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: " إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر وأقام الصلاة وآتى الزكاة" الآية "اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں، جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، نمازوں کی پابندی کرتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں، اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، توقع ہے کہ یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں۔ (سورۃ التوبہ: ۱۸)" (سنن الترمذى،حديث نمبر:3093)(۱)
تخریج الحدیث :
سوال میں ذکرکردہ روایت کو امام ترمذی(م 279ھ)نے ’’سنن الترمذی ‘‘(5/277)،رقم الحديث:3093،ط: شركة مصطفى البابي الحلبي) ميں ذکر کیا ہے۔
۱۔ امام احمد (م 241 ھ)نے ’’مسنداحمد‘‘(10/216)،رقم الحديث: 11593، ط:دارالحديث) ميں ذکر کیا ہے۔
۲۔امام دارمی (م 255 ھ) نے ’’سنن الدارمى‘‘(2/780)، رقم الحدیث:1259،ط: دارالمغنی) ميں ذکر کیا ہے۔
۳۔امام ابن ماجہ (م 273ھ)نے ’’سنن ابن ماجة‘‘(1/263)، رقم الحدیث:802،ط:داراحیاء الکتب العربیۃ) ميں ذکر کیا ہے۔
۴۔حافظ ابن خزیمہ (م 311ھ)نے ’’صحیح ابن خزیمۃ‘‘(1/726)، رقم الحدیث:1502، ط: المكتب الإسلامى) ميں ذکر کیا ہے۔‘‘
۵۔علامہ ا بن حبان (م 354 ھ)نے’’صحیح ابن حبان‘‘(5/6)، رقم الحدیث: 1721،ط: مؤسسة الرسالة )ميں ذکر کیا ہے۔
۶۔امام حاکم (م405ھ)نے ’’المستدرك على الصحيحين‘‘(1/332)، رقم الحديث:770،ط: دارالكتب العلمية) ميں ذکر کیا ہے۔
۷۔ امام بیہقی(م 458ھ) نے ’’السنن الكبرى ‘‘(3/66) رقم الحديث:5178، ط: مجلس دائرة المعارف) ميں ذکر کیا ہے۔
اس روايت كی اسنادی حیثیت:
امام ترمذی(م279ھ) نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:یہ حدیث حسن غریب ہے، امام حاکم ؒ (م405ھ)نے اس روایت کو "صحیح" قرار دیا ہے، لیکن امام ذہبی ؒ (م748ھ)نے ان پر رد کرتے ہوئے فرمایا: اس روایت کی سند میں "دراج" روای ہے اور وہ بہت زیادہ منکر روایات بیان کرتا ہے، امام مغلطائی نے "ابن ماجہ" کی شرح میں اس روایت کو "ضعیف" قرار دیا ہے۔(۲)
اس روایت میں "دراج" روای پر کلام کیا گیا ہے، امام احمد ؒ (م241ھ)نے فرمایا: وہ (دراج بن سمعان) منکر روایات بیان کرتا ہے۔ امام ابو حاتم(م277ھ) نے فرمایا: کہ ان کی احادیث میں ضعف ہے ، امام ابو داؤد (م275ھ )نے فرمایا کہ ان کی احادیث درست ہیں، سوائے ان کی وہ روایات جو " ابوالھیثم عن سعید" کی سند سے ہیں، اور (دراج بن سمعان) کے بارےمیں علامہ ابن عدی (م365ھ)نے کہا کہ دراج کی جو روایات عن أبي الهيثم، عن أبي سعيد" کے طریق سے ہیں وہ منکر ہیں(۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱)سنن الترمذى: (5/277)،رقم الحديث:3093،ط: شركة مصطفى البابي الحلبي)
حدثنا أبو كريب قال: حدثنا رشدين بن سعد، عن عمرو بن الحارث، عن دراج، عن أبي الهيثم، عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا رأيتم الرجل يعتاد المسجد فاشهدوا له بالإيمان»، قال الله تعالى: {إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر} [التوبة: 18] هذا حديث حسن غريب، وأبو الهيثم اسمه: سليمان بن عمرو بن عبد العتواري، وكان يتيما في حجر أبي سعيد الخدري ".
و الحديث أخرجه أحمد فی ’’مسنده‘‘(10/216)،( 11593)،و الدارمي في ’’سننه‘‘(2/780)،( 1259)وابن ماجة في ’’سننه‘‘(1/263)( 802)، و ابن خزيمة في(1/726)، (1502)، ابن حبان’’صحيحه‘‘(5/6)،( 1721)،البيهقي في ’’سننه الكبرى‘‘(3/66)( 5178)
(۲)تخريج أحاديث إحياء علوم الدين: (1/345، ط: دار العاصمة)
قال العراقي: أخرجه الترمذي وحسنه وابن ماجه والحاكم وصححه منحديث أبي سعيد اه.
قلت: وأخرجه أيضاً أحمد وابن خزيمة في صحيحه وابن حبان والبيهقي في السنن كلهم من حديث أبي سعيد قال الترمذي حسن غريب وتصحيح الحاكم له تعقبه الذهبي بأن في سنده دراجاً وهو كثير المناكير وقال مغلطاي في شرح ابن ماجه حديث ضعيف وعند الترمذي والحاكم وغيرهما بعد الحديث زيادة فإن الله يقول إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر.
تهذيب الكمال للمزى: (3/410، ط: دار الكتب العلمية)
دراج بن سمعان.۔۔۔۔ قال عبد الله بن أحمد بن حنبل عن أبيه: حديثه منكر.۔۔۔ ، عن أبي داود: أحاديثه مستقيمة إلا ما كان عن أبي الهيثم، عن أبي سعيد.وقال النسائي : ليس بالقوي.وقال في موضع آخر: منكر الحديث.وقال أبو حاتم : في حديثه ضعف.وقال الدارقطني: ضعيف.
(۳)الكامل في ضعفاء الرجال: (3/16، ط: دار الكتب العلمية)
وعامة هذه الأحاديث التي أمليتها مما لا يتابع دراج عليه، وفيها ما قد روى عن غيره، ومن غير هذا الطريق، ولدراج، عن ابن جزء، وأبي الهيثم وابن حجيرة غير ما ذكرت من الحديث، ويروي عن دراج عَمرو بن الحارث، وابن لَهيعَة، وحيوة بن شريح وغيرهم.۔۔۔.وسائر أخبار دراج غير ما ذكرت من هذه الأحاديث، يتابعه الناس عليها، وأرجو إذا أخرجت دراجا وبرأته من هذه الأحاديث التي أنكرت عليه، أن سائر أحاديثه لا بأس بها، وتقرب صورته مما قال فيه يحيى بن مَعين.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی