سوال:
مجھے میرے شوہر نے فون پر تین طلاقیں دی تھیں، بعد میں وہ اس بات سے انکار کرگئے اور کہنے لگے کہ میں نے "دو مرتبہ طلاق اور ایک مرتبہ ہلاک" کہا تھا، اس کے بعد ہم پھر ایک ساتھ رہنے لگے، اب آٹھ سال بعد پھر لڑائی ہوئی اور میں اپنے والدین کے گھر آگئی، اب اس نے ریکارڈنگ بھی بھیجی ہے کہ "آج سے تمہیں اپنی بیوی نہیں مانتا" تین ریکارڈنگ بھیجی ہیں، جس میں کہا ہے کہ "کل طلاق کے پیپر بھیج دوں گا" اس کے بعد اس نے میسیج بھی لکھا ہے، جس میں اس نے کہا ہے "upon me giving divorce 2 u" اور نیچے اس نے لکھا ہے کہ "آج سے ابھی سے خود کو میری طرف سے ہمیشہ کے لیے آزاد سمجھ لو"
مفتی صاحب ! کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوگئی ہے؟
جواب: طلاق کے الفاظ میں غلطی مثلاً: طلاق کے بجائے "ھلاق" کہنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہذا سوال میں بیان کی گئی تفصیل اگر واقعی سچ ہے، تو آپ کو آٹھ سال پہلے آپ کے شوہر نے جو تین طلاقیں دی تھیں، تو اسی وقت وہ تینوں طلاقیں آپ پر واقع ہو گئی تھیں اور آپ ان پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئیں تھیں اور آپ اپنے شوہر کے لیے اجنبی ہو گئیں تھیں، اس کے بعد ایک ساتھ رہنا اجنبی مرد اور عورت کے رہنے کی طرح تھا، جو حرام کاری کے زمرے میں آتا ہے، اتنے عرصے تک ساتھ رہنے کی وجہ سے جو گناہ ہوا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور خوب گڑگڑا کر توبہ و استغفار کریں، اور ان سے مکمل علیحدگی اختیار کریں اور آپ پر علیحدگی کے بعد مستقل عدت نہیں ہو گی، کیونکہ طلاق کے وقت سے ہی آپ کی عدت شمار ہو کر ختم ہو چکی ہے۔
ہاں! اگر دوبارہ اپنے سابقہ شوہر سے نکاح کرنا چاہیں، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے آپ اپنی مرضی سے کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کریں اور وہ شخص وظیفہ زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے آپ کو طلاق دیدے٬ یا اس شخص کا انتقال ہوجائے٬ تو اس کی عدت پوری ہونے کے بعد آپ اپنے سابق شوہر کے ساتھ نکاح کرنا چاہیں٬ تو باہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (248/3، ط: دار الفکر)
"(ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح،ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل، وإن قال تعمدته تخويفا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى".
مطلب من الصريح الألفاظ المصحفة (قوله ويدخل نحو طلاغ وتلاغ إلخ) أي بالغين المعجمة. قال في البحر: ومنه الألفاظ المصحفة وهي خمسة فزاد على ما هنا ثلاثا. وزاد في النهر إبدال القاف لاما. قال ط: وينبغي أن يقال إن فاء الكلمة إما طاء أو تاء واللام إما قاف أو عين أو غين أو كاف أو لام واثنان في خمسة بعشرة تسعة منها مصحفة، وهي ما عدا الطاء مع القاف اه".
البحر الرائق: (271/3، ط: دار الکتاب الاسلامی)
"ومنه الألفاظ المصحفة وهي خمسة: تلاق وتلاغ وطلاغ وطلاك وتلاك فيقع قضاء ولا يصدق إلا إذا أشهد على ذلك قبل التكلم بأن قال امرأتي تطلب مني الطلاق وأنا لا أطلق فأقول: هذا ولا فرق بين العالم، والجاهل وعليه الفتوى".
فتاویٰ حقانیہ: (586/4، ط: دار العلوم حقانیه)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالإفتاء الاخلاص،کراچی