سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک مسئلہ کی وضاحت مطلوب ہے، ایک فائینانسنگ ادارہ ہے، جو اپنے کلائنٹ (گاہک) کے ساتھ اس طرح شراکت داری کرتا ہے کہ مثلا کلائنٹ نے ایک پلاٹ خریدنا ہے، جس کی مالیت 18 لاکھ روپے ہے، یہ ادارہ اس اپنے کلائنٹ کو پلاٹ خریداری کے لیے 15 لاکھ روپے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ اس پلاٹ میں حصہ دار بن جائیں گے۔
کلائنٹ نے آئندہ 5 سے 15 برس میں وہ رقم قسطوں کی صورت میں واپس کرنی ہے، اب چونکہ ادارہ اس پلاٹ میں اس کلائنٹ کا شراکت دار ہے تو وہ کہتا ہے کہ آپ ھمارے حصہِ پلاٹ کو استعمال کرنے کی وجہ سے ہمیں اس کا کرایہ ادا کریں گے، 5 برس میں مکمل ادائیگی قرض کی صورت میں کرایہ رقم قرض کا 2 فیصد، جبکہ 10 برس کی مدت پر 4 فیصد اور 15 برس میں ادا کرنے کی صورت میں 5 فیصد کرایہ ادا کرنا ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس ادارہ سے اس طرح شراکت داری کرنا جائز ہے؟
آگر جائز نہیں ہے تو جواز کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟
جواب: آپ کا معاملہ فقہی لحاظ سے "شرکت متناقصہ" کی صورت ہے، لیکن اس میں ایک شرعی خرابی یہ پائی جاتی ہے کہ اس صورت میں کرایہ کی رقم واضح نہیں ہے، بلکہ اس میں تردد ہے کہ اگر 10 برس میں قرض ادا کیا، تو اتنا کرایہ ہوگا، اور 15 سالوں میں ادائیگی کی صورت میں پانچ فیصد کرایہ ہوگا، لیکن ان دونوں شقوں میں سے کوئی ایک شق متعین نہیں کی گئی، جب کہ شرعا کوئی ایک شق طے کرنا ضروری ہے۔
نیز اس میں یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آخر میں وہ پلاٹ کلائنٹ کی ملکیت میں کب اور کیسے آئے گا؟ لہذا مذکورہ طریقہ کار شرعا درست نہیں ہے۔
اس کی جائز صورت یہ ہے کہ کلائنٹ اور ادارہ دونوں اپنا سرمایہ ملاکر پلاٹ خریدنے کے بعد ادارے کا حصہ استعمال کرنے کی وجہ سے ماہانہ کرایہ طے کرلیں، اس کے ساتھ اس کے حصے کے برابر یونٹس (units) بنالیں (مثال کے طور پر اگر ادارے کا حصہ اس میں %60 فیصد ہے، تو 6 یونٹس بنالیں، ہر یونٹ دس فیصد حصے کی نمائندگی کرے گا) اور کلائنٹ ادارے کے ساتھ وعدہ کرلے کہ ہر تین ماہ (یا جو بھی مدت باہمی طور پر طے ہوجائے) کے بعد ایک یونٹ آپ خرید لیں گے، یوں ایک یونٹ خریدنے سے شریک (ادارہ) کا دس فیصد حصہ کم ہوجائے گا، اور کلائنٹ کا حصہ دس فیصد بڑھ جائے گا، نیز اسی حساب سے کرایہ بھی کم ہوجائے گا۔
اس طرح کرتے کرتے آخر میں ادارے کا حصہ بالکل ختم ہوجائے گا، اور پلاٹ مکمل طور پر کلائنٹ کی ملکیت میں آجائے گا۔
اس میں اس بات کا لحاظ ضروری ہے کہ پلاٹ کی مشترکہ خریداری اور یونٹس کی خریداری کا معاہدہ الگ الگ کیا جائے، ایک سودے میں دونوں معاملے جمع کرنا، یا ایک کو دوسرے کے ساتھ مشروط کرنا جائز نہیں ہے۔
البتہ مشترکہ خریداری کے وقت یونٹس کی خریداری کا وعدہ کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقه البیوع: (505/1، ط: معارف القرآن)
ومن قبیل زیادۃ الشرط فی البیع ما یسمی "صفقۃ فی صفقۃ"، وھو أن یشترط فی العقد عقد آخر.... والأصل فی ذلک ما روی عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال:
"نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن صفقتين فی صفقۃ واحدۃ"۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلی أساس ھذا الحدیث ذھب جمھور العلماء الی أن اشتراط صفقۃ فی صفقۃ أخری لایجوز. قال ابن قدامۃ رحمہ اللہ تعالی: "وھکذا کل ما فی معنی ھذا، مثل أن یقول: بعتک داری ھذہ علی أن أبیعک داری الأخری بکذا أو علی أن تبیعنی دارک، أو علی أن أوجرک أو علی أن توجرنی کذا..."
و فیه أیضا: (526/1، ط: معارف القرآن)
أما اذا آجر المؤجر عینا ولم یکن البیع مشروطا فی عقد الإجارۃ ولکن وعد المؤجر بالبیع منفصلا عن العقد فینبغی الجواز بشرط أن تجری علیہ جمیع أحکام الإجارۃ طوال المدۃ....
المعاییر الشرعیة: (الشرکۃ، المشارکۃ و الشرکات الحدیثیة، المشارکة المتناقصة)
5/7 یجوز اِصدار احدالشریکین وعدا ملزما یحق بموجبہ لشریکہ تملک حصتہ تدریجیا من خلال عقد بیع عند الشراء وبحسب القیمۃ السوقیۃ فی کل حین او بالقیمۃ التی یتفق علیھا عند الشراء.ولا یجوز اشتراط البیع بالقیمۃ الاسمیۃ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی