سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! چند مہینوں پہلے میری اور میری بیوی کی گھریلوں معاملات کی وجہ سے لڑائی ہوئی تھی تو میری بیوی نے مجھ سے بہت بدتمیزی کی، جس کی وجہ میں نے اس پر ہاتھ اٹھا دیا اور اس نے اپنے والدین کو کال کرکے بلا لیا اور ان کے ساتھ چلی گئی، میرا ایک دو سال کا بیٹا بھی ہے اور جس وقت میری بیوی مجھے چھوڑ کے چلی گئی تھی، اس وقت وہ حاملہ تھی، میرے سسرال والو نے مجھے بتائے بغیر میری بیوی کی ڈیلیوری کروادی اور مجھے بلایا تک نہیں، اور نہ بتایا، چند دن بعد مجھے کیسی رشتہ دار سے پتہ چلا کہ آپ کو بیٹی کی مبارک ہو، مجھے یک دم جھٹکا لگا، میں نے کال کرکے پوچھا تو اس بات کی تصدیق ہو گئی، خیر 8 ماہ بعد جب میں اپنی بیوی کو لینے گیا تو میرے سسرال والو نے مجھ سے پیسوں کا تقاضہ کرا کہ جو ہمارا خرچ ہوا ہے، وہ دو، پھر ہم تمہاری بیوی اور بچوں کو بھیجیں گے۔ اس معاملہ میں مجھے آپ کی رائے کی ضرورت ہے، جو شریعت کے مطابق ہو، رہنمائی فرمادیں کہ کیا مجھے ان آٹھ مہینوں اور ڈیلیوری کا خرچہ دینا چاہیے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں عورت چونکہ بلا کسی شرعی عذر کے شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر گھر چھوڑ کر گئی ہے، لہذا عورت کے آٹھ مہینوں کا نان ونفقہ شوہر کے ذمہ لازم نہیں ہے، البتہ دو سالہ بچے کے آٹھ مہینوں کا نان ونفقہ اور بچی کی ولادت کا خرچہ باپ کے ذمہ لازم ہے، لہذا اس دوران جس شخص نے دو سالہ بچے اور بچی کی ولادت کا خرچ اٹھایا ہے، اسے وہ خرچ لوٹانا باپ کی ذمہ داری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 233)
وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَها لا تُضَارَّ والِدَةٌ بِوَلَدِها وَلا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ فَإِنْ أَرادا فِصالاً عَنْ تَراضٍ مِنْهُما وَتَشاوُرٍ فَلا جُناحَ عَلَيْهِما وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ فَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ إِذا سَلَّمْتُمْ ما آتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِما تَعْمَلُونَ بَصِيرٌo
مجمع الأنهر: (باب النفقة، 488/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
(ولا نفقة لناشزة) أي عاصية ما دامت على تلك الحالة ثم وصفها على وجه الكشف فقال (خرجت) الناشزة (من بيته) خروجا حقيقيا أو حكميا (بغير حق) وإذن من الشرع قيد به؛ لأنها لو خرجت بحق كما لو خرجت لأنه لم يعط لها المهر المعجل أو لأنه ساكن في مغصوب أو منعته من الدخول إلى منزلها الذي يسكن معها فيه بحق كما لو منعته لاحتياجها إليه وكانت سألته أن يحولها إلى منزله أو يكتري لها منزلا آخر، ولم يفعل لم تكن ناشزة وقيد بالخروج؛ لأنها لو كانت مقيمة معه ولم تمكنه من الوطء لا تكون ناشزة؛ لأن البكر لا توطأ إلا كرها.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی