سوال:
آج کل کلب کرکٹ میں لڑکے اپنی عمر کم کروا کر انڈر 19 کھیلتے ہیں ، جبکہ ان کی اصل عمر 23 سال یا اس سے کم زیادہ ہوتی ہے ،کیا اس میں کسی کا حق مارنا لازم آتا ہے؟ ، اور کیا ایسا کر کے اگر ٹیم میں چلے جائیں تو کیا وہ پیسہ حلال ہو گا یا حرا م ؟
برائے کرم دلائل رہنمائی فرمادیں، تاکہ میرے تمام شک وشبہات دور ہو جائیں۔
جواب: کسی بھی جائز ملازمت کے حصول کے لیے غلط بیانی کرکے عمر کم لکھوانا جھوٹ اور دھوکہ کے زمرے میں شامل ہے، جس کا گناہ ہوگا۔
واضح رہے کہ کرکٹ میچ یا دوسرے کھیل جب مستقل مقصد بنالیے جائیں، اور اس سے شرعی فرائض و واجبات میں کوتاہی ہونے لگے، اور خاص طور پر میچ کے دوران غیر شرعی کام بھی ہونے لگیں، جیسا کہ آج کل کے کھیلوں میں ان شرعی مفاسد کا ارتکاب کیا جانا معروف و مشاھد ہے، مثلاً: ناچ گانا، موسیقی، مردوں اور عورتوں کا مخلوط اجتماع اور بے پردگی ہونا، ان کھیلوں کا لازمی حصہ ہے۔
البتہ چونکہ کرکٹ اپنی ذات میں کوئی گناہ کا کام نہیں ہے، لہذا اس کا اجارہ منعقد ہو جائے گا، اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والى آمدنى کو حرام نہیں کہا جائے گا۔
لیکن ایسى ملازمت اختیار کرنا، جس میں مندرجہ بالا گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہو، شرعا پسندیدہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (کتاب الإیمان، رقم الحدیث: 101، 99/1، ط: دار إحیاء التراث العربى)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ ح، وَحَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ مُحَمَّدُ بْنُ حَيَّانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، كِلَاهُمَا عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا، وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا»
تکملة فتح الملھم: (434/4، ط: مکتبہ دار العلوم کراتشی)
"فالضابط في ہٰذا الباب .… أن اللہو المجرد الذي لا طائل تحتہ، ولیس لہ غرض صحیح مفید في المعاش ولا المعاد حرامٌ أو مکروہٌ تحریمًا … وما کان فیہ غرض ومصلحۃ دینیۃ أو دنیویۃ، فإن ورد النہي عنہ من الکتاب أو السنۃ … کان حرامًا أو مکروہًا تحریمًا …. وأما ما لم یرد فیہ النہي عن الشارع، وفیہ فائدۃ ومصلحۃ للناس، فہو بالنظر الفقہي علی نوعین: الأول: ما شہدت التجربۃ بأن ضررہ أعظم من نفعہ، ومفاسدہ أغلب علی منافعہ، وأنہ من اشتغل بہ ألہاہ عن ذکر اللّٰہ وحدہ، الصلوات والمساجد، التحق ذٰلک بالمنہي عنہ، لاشتراک العلۃ، فکان حرامًا أو مکروہًا۔ والثاني: ما لیس کذٰلک، فہو أیضًا إن اشتغل بہ بنیۃ التلہي والتلاعب فہو مکروہٌ۔ وإن اشتغل بہ لتحصیل تلک المنفعۃ، وبنیۃ استجلاب المصلحۃ فہو مباح؛ بل قد یرتقي إلی درجۃ الاستحباب أو أعظم منہ …. وعلی ہٰذا الأصل فالألعاب التي یقصد بہا ریاضۃ الأبدان أو الأذہان جائزۃ في نفسہا ما لم تشتمل علی معصیۃ أخریٰ، وما لم یؤد الانہماک فیہا إلی الإخلال بواجب الإنسان في دینہ ودنیاہ۔ واللہ سبحانہ أعلم".
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی