سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! اگر کسی نے بیوی سے کہا ایک دو تین طلاق ہو، تو کیا طلاق ہو گئی یا نہیں؟
تنقیح:
محترم ! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ شوہر نے یہ الفاظ "ایک دو تین" کیوں ادا کیے ہیں، انکی نیت کیا تھی؟
نیز اس جملے سے پہلے مجلس میں طلاق کی کوئی بات ہوئی تھی؟
نیز یہ بھی بتائیں کہ "ایک دو تین" اور "طلاق ہو"، کے درمیان کوئی وقفہ تھا؟ یا یہ ایک ہی جملہ ہے؟
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
جواب تنقیح:
السلام علیکم، مفتی صاحب !شوہر نے کسی کام کرنے کو کہا، لیکن بیوی نے انکار کیا، تو شوہر نے غصہ میں ایک بار ایک دو تین طلاق ہو، متصل کہا، شوہر نے کہا کہ میں نے طلاق کی نیت سے نہیں کہا ہے۔ شکریہ
جواب: سوال میں ذکرکردہ صورت میں بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے، اور اب رجوع کا حق ختم ہو گیا ہے۔
تین طلاقیں دینے کی صورت میں عدت کے دوران رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ہے، اور نہ ہی عدت گزرنے کے بعد اس شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے، جب تک کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے اور اس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہ کرے، پھر اگر وہ طلاق دے دے یا انتقال کر جائے، تو عدت گزرنے کے بعد طرفین کی رضامندی سے نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں اسی شخص سے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایۃ: 230)
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ"....الخ
سنن أبي داود: (باب في اللعان، رقم الحدیث: 2250)
"عن سہل بن سعد قال :فطلقہا ثلاث تطلیقات عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فأنفذہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ....الخ“۔
عمدة القاری: (233/20، ط: دار إحياء التراث العربی)
”ومذہب جماہیر العلماء من التابعین ومن بعدہم منہم: الأوزاعي والنخعي والثوري، و أبو حنیفة وأصحابہ، ومالک و أصحابہ، والشافعي وأصحابہ، وأحمد و أصحابہ، و اسحاق و أبو ثور و أبو عبید وآخرون کثیرون علی أن من طلق امرأتہ ثلاثاً، وقعن؛ولکنہ یأثم“.وقالوا: من خالف فيه فهو شاذ مخالف لأهل السنة، وإنما تعلق به أهل البدع ومن لا يلتفت إليه لشذوذه عن الجماعة التي لا يجوز عليهم التواطؤ على تحريف الكتاب والسنة. وأجاب الطحاوي عن حديث ابن عباس بما ملخصه إنه منسوخ، بيانه أنه لما كان زمن عمر رضي الله تعالى عنه، قال: (يا أيها الناس! قد كان لكم في الطلاق أناة وإنه من تعجل أناة الله في الطلاق ألزمناه إياه) ، رواه الطحاوي بإسناد صحيح.
الدر المختار: (233/3، ط: دار الفکر)
وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث.
قال في الفتح بعد سوق الأحاديث الدالة عليه: وهذا يعارض ما تقدم، وأما إمضاء عمر الثلاث عليهم مع عدم مخالفة الصحابة له وعلمه بأنها كانت واحدة فلا يمكن إلا وقد اطلعوا في الزمان المتأخر على وجود ناسخ أو لعلمهم بانتهاء الحكم لذلك لعلمهم بإناطته بمعان علموا انتفاءها في الزمن المتأخر وقول بعض الحنابلة: توفي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن مائة ألف عين رأته فهل صح لكم عنهم أو عن عشر عشر عشرهم القول بوقوع الثلاث باطل؟ أما أولا فإجماعهم ظاهر لأنه لم ينقل عن أحد منهم أنه خالف عمر حين أمضى الثلاث، ولا يلزم في نقل الحكم الإجماعي عن مائة ألف تسمية كل في مجلد كبير لحكم واحد على أنه إجماع سكوتي.وأما ثانيا فالعبرة في نقل الإجماع نقل ما عن المجتهدين والمائة ألف لا يبلغ عدة المجتهدين الفقهاء منهم أكثر من عشرين كالخلفاء والعبادلة وزيد بن ثابت ومعاذ بن جبل وأنس وأبي هريرة، والباقون يرجعون إليهم ويستفتون منهم وقد ثبت النقل عن أكثرهم صريحا بإيقاع الثلاث ولم يظهر لهم مخالف - {فماذا بعد الحق إلا الضلال} [يونس: 32].
فتح القدیر: (451/3، ط: دار الکتب العلمیۃ)
ذہب جمہور الصحابة والتابعین ومن بعدہم من أئمة المسلمین الی أنہ یقع ثلاثاً".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی