سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! سوال یہ ہے کہ کیا کسی شخص سے پیسے لینا اور ان پیسوں سے اپنی ذاتی ضرورت پوری کرنا، جیسا کہ گھر لینا یا گاڑی لینا یا کوئی بھی اپنی ذاتی ضرورت پوری کرنا اور اس رقم کے عوض اس شخص کو ایک ماہانہ fix اماؤنٹ دینا اور اس شخص کے مانگنے پر اس کو پوری اماؤنٹ ایک ساتھ یا آدھی رقم لوٹانا باہمی رضامندی سے صحیح ہے؟
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں ماہانہ متعین رقم (fix amount) دینا سود ہے، کیونکہ قرآن و حدیث کی واضح اور قطعی نصوص کی روشنی میں سود کا لین دین حرام ہے٬ لہذا اس سے بچنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الآیة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
و قوله تعالی: (البقرۃ، الآیة: 275)
أحل اﷲ البیع وحرم الربوا....الخ
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 4092)
عن جابر قال:لعن رسول الله صلى الله عَليه وسلم آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ،وقال: هم سواء.
السنن الکبری للبیھقي: (باب کل قرض، رقم الحدیث: 11092، دار الفکر)
عن فضالۃ بن عبید صاحب النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ قال: کل قرض جر منفعۃ فہو وجہ من وجوہ الربا.
الدر المختار: (کل قرض جر نفعا حرام، 166/5، سعید)
کل قرض جر نفعا حرام.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی