سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میرا دوست ایک کاروبار شروع کر رہا ہے، وہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ تم میرے کاروبار میں ایک لاکھ روپے لگا دو، تمہیں اسکا پرافٹ بھی ملے گا اور تمہاری رقم میں بھی اضافہ ہو گا، تو کیا میں اس کے کاروبار میں پیسے انویسٹمنٹ کر سکتا ہوں؟
جواب: سوال میں ذکر کی گئی صورت کے مطابق کاروبار میں چونکہ آپ کے دوست کا سرمایہ بھی شامل ہے، اس لئے اس معاملے کو فقہی اصطلاح میں مشارکہ/عقد شرکت کہا جاتا ہے، جوکہ بذات خود ایک جائز معاملہ ہے، البتہ شرعی طور پر شرکت کا معاملہ صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ فریقین نفع کی تقسیم کا کوئی فیصدی تناسب طے کرلیں، جبکہ نقصان کی صورت میں ہر فریق اپنے اپنے سرمایہ کے بقدر نقصان برداشت کرے گا۔
واضح رہے کہ شرکت کے معاملے میں ہر شریک نفع کے ساتھ نقصان میں بھی شریک ہوتا ہے، اس لئے آپ کے دوست کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ " تمہیں اس کا پرافٹ ملے گا اور تمہاری رقم میں اضافہ بھی ہوگا" بلکہ اس طرح طے کرنا چاہئیے کہ اگر نفع ہوا، تو (باہمی رضامندی سے) طے شدہ تناسب کے مطابق نفع ملے گا، اور اگر نفع کے بجائے نقصان ہوجائے، تو پھر ہر شریک کو اپنے اپنے سرمایہ کے بقدر برداشت کرنا پڑے گا، اس طرح طے کرنے سے معاملہ صحیح ہوجائے گا۔
بہتر ہے کہ معاملہ شروع کرتے وقت اس معاہدہ کو باقاعدہ تحریری صورت میں لانا چاہئیے، تاکہ بعد میں کسی قسم کے نزاع کی نوبت نہ آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (کتاب الشرکۃ، 517/7، ط: بیروت)
إذا شرطا الربح علی قدر المالین ؛ متساویا أو متفاضلا ، فلا شک أنہ یجوز ویکون الربح بینہما علی الشرط ، سواء شرطا العمل علیہما أو علی أحدہما ، والوضیعۃ علی قدر المالین متساویا ومتفاضلا ؛ لأن الوضیعۃ اسم لجزء ہالک من المال فیتقدر بقدر المال
الدر المختار: (434/8، ط: زکریا)
" وشرطها .... کون الربح بینهما شائعًا فلو عَیَّنَ قدرًا فسدتْ وکون نصیب کلٍّ منهما معلومًا عند العقد. وفي الجلالیة: کل شرط یوجب الجهالة في الربح أو یقطع الشرکة
الدر المختار: (647/5، ط: سعید)
و شرطھا امور سبعۃ....و کون الربح بینہما شائعا، فلو عین قدرا فسدت، و کون نصیب کل منہما معلوما عند العقد۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی