resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: " مسور کی دال کھاؤ، کیونکہ یہ دل کو نرم اور آنسوؤں کو زیادہ کرتی ہے" حدیث کى تحقیق(9007-No)

سوال: فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: مسور کی دال کھاؤ، کیونکہ یہ دل کو نرم اور آنسوؤں کو زیادہ کرتی ہے۔(مسند الفردوس، رقم الحدیث:3876) مفتی صاحب! کیا یہ حدیث درست ہے؟

جواب: دال کى فضیلت سے متعلق سوال میں مذکور حدیث کے متن (مضمون) کو اکثر محدثین کرام نے موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے، لہذا اس حدیث کو آنحضرت ﷺ کى طرف منسوب کر کے بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ذیل میں اس حدیث کا ترجمہ، تخریج اور اسنادى حیثیت ذکر کى جاتى ہے:
ترجمہ:حضرت أبو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "ايک نبى علیہ السلام نے اللہ تعالى کے سامنے اپنى قوم کے دلوں کى سختى کا شکوہ کیا، تو جس وقت وہ نبى علیہ السلام اپنى جائے نماز پر تھے تو اللہ تعالى نے ان کى طرف وحى نازل فرمائی کہ آپ اپنى قوم کو دال کھانے کى تلقین کریں، کیونکہ دال کھانے سے دل میں نرمى پیدا ہوتی ہے، یہ آنکھوں میں آنسو لاتى ہے، تکبر کو ختم کرتى ہے اور یہ نیک اور برگزیدہ بندوں کا کھانا ہے"۔
تخریج الحدیث:
1- اس حدیث کو علامہ سیوطی رحمہ اللہ (م 911ھ) نے اپنى کتاب "اللآلئ المصنوعہ" ج2ص 180، ط: دار الکتب العلمیۃ-بیروت، میں امام ابن السنی رحمہ اللہ (م 364ھ) کى کتاب "الطب النبوى صلى اللہ علیہ وسلم" کے حوالے سے نقل فرمایا ہے۔
2- امام ابو نعیم الأصبہانی رحمہ اللہ (م 430ھ) نے اپنی کتاب "الطب النبوی صلى اللہ علیہ وسلم" ج 2ص 637، رقم الحدیث(688)، ط: دار ابن حزم، میں نقل فرمایاہے۔
3- امام ابو شجاع الدیلمی رحمہ اللہ (509ھ) نے اپنى کتاب مسند الفردوس (بحوالہ الغرائب الملتقطۃ) ج 5ص 290، رقم الحديث(1829)، ط: جمعية دار البر، میں نقل فرمایا ہے۔ (1)
حدیث کى اسنادى حیثیت:
1- اس حدیث کو علامہ سیوطى رحمہ اللہ(م 911ھ) نے "اللآلی المصنوعۃ" ج 2ص 180 ، ط: دار الکتب العلمیۃ-بیروت، میں ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: اس حدیث کى سند کے راوى "یحیى بن حوشب الأسدى" منکَر الحدیث (محدثین کى اصطلاح میں ضعیف راوى) ہیں۔
2- اسى طرح ابن عراق الکنانى رحمہ اللہ (م 963ھ) نے اپنى کتاب "تنزیہ الشریعۃ" ج 2 ص 244، ط: دار الكتب العلمية – بيروت، میں اس حدیث کے راوى "یحیى بن حوشب" پر علامہ سیوطى رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا کلام نقل کرنے کے بعد فرمایا: " یحیى بن حوشب" سے روایت کرنے والے"موسى بن محمد المرادى" ہیں، جن کو میں نہیں جانتا۔ (2)
نیز دال کى فضیلت سے متعلق اس طرح کا جو بھی مضمون احادیث میں بیان کیا گیا ہے، اس کے بارے میں چند جلیل القدر محدثین رحمہم اللہ کے اقوال درج ذیل ہیں:
1- علامہ ابن القیم جوزی رحمہ اللہ نے "المنار المنیف" ص 128 میں فرمایا: دال، چاول، لوبیا وغیرہ سے متعلق جتنى بھى احادیث ہیں، وہ سراسر جھوٹ ہیں۔ (3)
2- علامہ عجلونى رحمہ اللہ نے "کشف الخفا" 1/ 319 میں فرمایا: ابن الغرس نے کہا ہے کہ مجدالدین نے "سفر السعادۃ" میں فرمایا: دال، لوبیا وغیرہ کے متعلق کوئى حدیث صحیح نہیں ہے، ان احادیث کو زندیق لوگوں نے ان ابواب میں اپنى طرف سے گھڑی ہیں اور ان احادیث کو اسلام کى بدنامى کے لیے محدثین کى کتابوں میں شامل کر دیا ہے، اللہ تعالى ان کو ناکام بنائے۔ (4)
3- علامہ سیوطى رحمہ اللہ نے "تدریب الراوى" 1/ 342 میں دال سے متعلق حدیث کو موضوع احادیث میں سے شمار کیا ہے۔ (5)
4- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "مجموع الفتاوى"27/ 23 میں فرمایا: وہ حدیث جس میں دال کھانے کو دل کى نرمى کا باعث قرار دیا گیا ہے، وہ حدیث جھوٹ اور من گھڑت ہے۔ (6)
خلاصہ کلام:
سوال میں مذکور حدیث "سند" کے اعتبار سے ضعیف ہے، جبکہ اس حدیث کے "متن" (مضمون) کو بہت سے محدثین نے "موضوع" (من گھڑت) بھی قرار دیا ہے، لہذا اس حدیث کو آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى طرف نسبت کر کے بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(1) اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة : (2/ 180، ط: دار الكتب العلمية بيروت)
وقال ابن السني في الطب...عن يحيى بن حوشب الأسدي ،عن صفوان بن عمرو ،عن مكحول ،عن أبي هريرة، قال :قال رسول الله: "إن نبيا من الأنبياء اشتكى إلى الله قساوة قلوب قومه ،فأوحى الله إليه وهو في مصلاه :أن مر قومك يأكلوا العدس ،فإنه يرق القلب ،ويدمع العينين ،ويذهب الكبر ،وهو طعام الأبرار". وقال السیوطی: يحيى منكر الحديث.

(2) تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة: (2/ 244، ط: دار الكتب العلمية)
"وروى ابن السني في الطب من حديث أبي هريرة أن نبيا من الأنبياء شكى إلى الله قساوة قلوب قومه فأوحى الله إليه وهو في مصلاه أن مر قومك أن يأكلوا العدس فإنه يرق القلب، ويدمع العينين، ويذهب الكبر، وهو طعام الأبرار، وفيه يحيى بن حوشب منكر الحديث (قلت) وعنه موسى بن محمد المرادي، ما عرفته".

(3) المنار المنيف في الصحيح و الضعيف لابن القیم: (ص: 128، ط: مكتبة المطبوعات الإسلامية، حلب)
"ومن ذلك ما تقدمت الإشارة إلى بعضه أحاديث مدح العدس والأرز والباقلاء والباذنجان والرمان والزبيب والهندباء والكراث والبطيخ والجزر والجبن والهريسة وفيها جزء كله كذب من أوله إلى آخره".

(4) كشف الخفاء: (319/1، ط: المكتبة العصرية)
"وقال ابن الغرس: قال مجد الدين صاحب القاموس في كتابه سفر السعادة، ويسمى الصراط المستقيم أيضا: العدس والباقلاء والجبن والجوز والباذنجان والرمان والزبيب لم يصح فيها شيء، وإنما وضع الزنادقة في هذه الأبواب أحاديث, وأدخلوها في كتب المحدثين شينا للإسلام -خذلهم المليك العلام-".

(5) تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي: (342/1، ط: دار طيبة)
"الثالث: من الموضوع أيضا: حديث الأرز، والعدس، والباذنجان، والهريسة".

(6) مجموع الفتاوى: (23/27، ط: مجمع الملك فهد، سعودية)
"فمن اعتقد أن الأكل من هذا الخبز والعدس مستحب شرعه النبي صلى الله عليه وسلم فهو مبتدع ضال بل من اعتقد أن العدس مطلقا فيه فضيلة فهو جاهل. والحديث الذي يروى: {كلوا العدس فإنه يرق القلب وقد قدس فيه سبعون نبيا} حديث مكذوب مختلق باتفاق أهل العلم. ولكن العدس هو مما اشتهاه اليهود. وقال الله تعالى لهم: {أتستبدلون الذي هو أدنى بالذي هو خير}".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالإفتاء الاخلاص،کراچی


"daal khane / khaney se / say dil narm hone / honey or ansoun ke / kay jari honey" se / say mutaliq aik hadees ki tehqeeq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees