سوال:
میں نے بیوی کو طلاق دے دی تھی، ہمارا ایک بچہ ہے، بیوی نے دوسری جگہ شادی کرلی ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ بچہ کس کے پاس رہے گا؟ براہ کرم وضاحت فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ طلاق کی وجہ سے اگر میاں بیوی دونوں کے درمیان علیحدگی ہو جائے تو ماں لڑکے کو سات برس اور لڑکی کو نو برس تک اپنے پاس رکھ سکتی ہے، بشرطیکہ ماں اس دوران کسی دوسرے ایسے شخص سے شادی نہ کرلے جو بچی کا غیر محرم ہو۔
بیٹے کی عمر سات سال ہونے سے پہلے اگر ماں کسی ایسے شخص سے شادی کرلے جو اس بچہ کے لیے ذی رحم محرم نہ ہو تو ماں کا حقِ پرورش ساقط ہوجائے گا، ماں کا حق ساقط ہونے کی صورت میں بچہ والد کے پاس نہیں جائے گا، بلکہ اگر نانی زندہ ہو تو نانی کے پاس، ورنہ دادی کے پاس رہے گا اور سات سال پورے ہونے کے بعد والد کے پاس جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبی داؤد: (رقم الحدیث: 2276، 283/2، ط: المكتبة العصرية)
عن جده عبد الله بن عمرو، أن امرأة قالت: يا رسول الله، إن ابني هذا كان بطني له وعاء، وثديي له سقاء، وحجري له حواء، وإن أباه طلقني، وأراد أن ينتزعه مني، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنت أحق به ما لم تنكحي.
الدر المختار: (366/3، ط: دار الفکر)
(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض)۔۔۔۔۔ (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى.
و فیه ایضا: (365/3)
و) الحاضنة (يسقط حقها بنكاح غير محرمه) أي الصغير.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی