سوال:
۱) کیا یہ بات صحیح ہے کہ روضہ اطہر پر پڑھا جانے والا درود و سلام حضور ﷺ خود سنتے ہیں اور دور سے پڑھے جانے والا درود و سلام فرشتے آپ ﷺ تک پہنچاتے ہیں؟
۲) روضہ رسول پر حاضری کے وقت شفاعت کا طلب کرنا کیسا ہے؟
۳) حج و عمرہ کی ادائیگی کے لیے جانے والے حضرات کو یہ کہنا کہ روضہ رسول پہ حاضری کے وقت بارگاہ رسالت میں میرا نام لیکر درود و سلام عرض کرتے ہوئے شفاعت کی درخواست کرنا، کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: ۱) اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ اپنی قبر مبارک میں حیات ہیں اور آپ ﷺ کی قبر مبارک کے قریب پڑھا گیا درود و سلام آپ ﷺخود سنتے ہیں اور دور سے پڑھا گیا درود و سلام آپ ﷺ تک فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے، اس عقیدہ سے متعلق ذیل میں چند احادیث مبارکہ درج کی جاتی ہیں:
الف)حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ اور نہ میری قبر کو عید (میلہ گاہ) بناؤ اور مجھ پر درود پڑھو، تم جہاں کہیں بھی ہو گے تمہارا درود مجھ کو پہنچ جائے گا۔(سنن أبی داؤد، حدیث نمبر:2042)
ب)حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک زمین میں اﷲ تعالیٰ کی جانب سے ایسے فرشتے مقرر ہیں، جو مجھے میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں۔(مسند امام احمد،حدیث نمبر:4320)
ج)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھتا ہے، میں اس کو سنتا ہوں، اور جو شخص دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے، وہ میرے پاس پہنچا دیا جاتا ہے۔(شعب الایمان للبیھقی ،حدیث نمبر:1482)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی قبر مبارک کی قریب پڑھا گیا درود شریف آپ ﷺ براہ راست خود سنتے ہیں اور دور سے پڑھا گیا درود شریف آپ ﷺ تک فرشتوں کے واسطے سے پہنچایا جاتا ہے۔
۲) جى ہاں ! روضہ اقدس کے سامنے ہاتھ اٹھائے بغیر آنحضرت ﷺ کى خدمتِ اقدس میں شفاعت کى درخواست کرنا اپنے لیے بھى جائز ہے اور دوسرے امتیوں کے لیے بھى جائز ہے۔
۳) روضہ اقدس پر حاضری کے وقت جیسے خود سلام پیش کرنا درست ہے، اسی طرح دوسروں کی طرف سے بھی سلام پیش کرنا درست ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کہیں: "یارسول اللہ ! آپ پر ایمان رکھنے والے اور آپ کا نام لینے والے چند عزیزوں نے سلام عرض کیا ہے، آپ ان کا سلام قبول فرمائیں اور ان کے لیے بھی اپنے رب سے مغفرت مانگیں، وہ بھی آپ کی شفاعت کے طلب گار اور امیدوار ہیں۔
عربی میں سلام پیش کرنا ہو تو ان الفاظ میں سلام پیش کرے: اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰه ! فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ یُسَلِّمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ.(فلاں بن فلاں کی جگہ پر سلام بھیجنے والے مرد یا عورت کا نام لیا جائے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبی داؤد: (رقم الحديث: 2042، 218/2، ط: الکمتبۃ العصریۃ)
حدثنا أحمد بن صالح، قرأت على عبد الله بن نافع، أخبرني ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تجعلوا بيوتكم قبورا، ولا تجعلوا قبري عيدا، وصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم".
مسند أحمد: (رقم الحديث: 4320، 343/7، ط: مؤسسة الرسالة)
حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عبد الله بن السائب، عن زادان، عن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن لله ملائكة سياحين في الأرض، يبلغوني من أمتي السلام".
شعب الإيمان: (رقم الحديث: 1481، 140/3، ط: مكتبة الرشد)
عن أبی ھریرۃ قال قال: عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من صلى علي عند قبري سمعته، ومن صلى علي نائيا أبلغته".
مرقاۃ المفاتیح: (749/2، ط: دار الفكر)
"ومن صلى علي عند قبري سمعته" : أي [سمعا] حقيقيا بلا واسطة، قال الطيبي: هذا لا ينافي ما تقدم من النهي عن الاعتياد الدافع عن الحشمة، ولا شك أن الصلاة في الحضور أفضل من الغيبة. انتهى، لأن الغالب حضور القلب عند الحضرة والغفلة عند الغيبة، (" ومن صلى علي نائيا ") ، أي: من بعيد كما في رواية: أي بعيدا عن قبري (" أبلغته ") : وفي نسخة صحيحة: بلغته من التبليغ، أي: أعلمته كما في رواية".
الھندیۃ: (265/1، ط: دار الفکر)
"ثم يقول: السلام عليك يا نبي الله ورحمة الله وبركاته أشهد أنك رسول الله قد بلغت الرسالة وأديت الأمانة ونصحت الأمة وجاهدت في أمر الله حتى قبض روحك حميدا محمودا فجزاك الله عن صغيرنا وكبيرنا خير الجزاء۔۔۔۔۔۔ويبلغه سلام من أوصاه فيقول: السلام عليك يا رسول الله من فلان بن فلان يستشفع بك إلى ربك فاشفع له ولجميع المسلمين".
امداد الفتاوی: (377/5، ط: مکتبہ دار العلوم کراتشی)
کذا فی فتاوی دار العلوم دیوبند: Fatwa : 1118-929/B=11/1440
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی