سوال:
مفتی صاحب! اس حدیث کی تصدیق فرمادیں: جو شخص وضو کے وقت یہ دعا (سبحانک اللھم و بحمدک لاالہ الا انت استغفرک واتوب الیک) پڑھ لے، اس کی مغفرت کا پرچہ لکھ کر مہر لگا کر رکھ دیا جاتا ہے، قیامت تک اس کی مہر نہ توڑی جائے گی اور بخشش کا حکم برقرار رہے گا۔ (طبرانی اوسط، 123/2)
جواب: سوال میں ذکر کردہ حدیث ’’صحیح ‘‘ہے، اس کو بیان کیا جاسکتا ہے۔
ذیل میں اس روایت کا ترجمہ ،تخریج ،اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ :حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے سورۂ کہف کی تلاوت کی، اس کے لیے قیامت کے دن اس کی جگہ سے لے کر مکہ تک نور ہوگا اور جس نے اس کی آخری دس آیات تلاوت کی، اور دجال کا خروج ہوا تو اس کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا، اور جس نے وضو کیا اور یہ دعا پڑھی " سبحانك اللهم وبحمدك، لا إله إلا أنت، أستغفرك وأتوب إليك " "اے اللہ ! تو پاک ہے اپنی تعریفوں کے ساتھ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ہی معبود برحق ہے، میں تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں،" تو ان کلمات کو ایک کاغذ میں لکھ کر اس پر مہر لگا دی جاتی ہے، اسے قیامت کے دن تک نہیں توڑا جاسکتا ہے۔(المعجم الاوسط: حدیث نمبر:1455)
تخریج الحدیث :
۱۔اس روایت کو امام طبرانی (م 360ھ) نے’’ المعجم الاوسط‘‘(2/123)، رقم الحدیث: 1455، ط: دار الحرمین) میں بیان کیا ہے۔
۲۔امام ابن ابی شیبہ (م 235ھ)نے’’ مصنف ابن أبي شيبة‘‘(1/231)،رقم الحدیث:19،ط: دار القبلة )میں ذکر کیا ہے۔
۲۔امام نسائی (م 303 ھ)’’السنن الکبری‘‘(9/37)،رقم الحدیث: 9829،9831،ط: مؤسسة الرسالة)میں ذکر کیا ہے۔
۳۔ امام ابن السُّنِّي (م 364ھ) نے’’ عمل اليوم والليلة‘‘ (35)رقم الحدیث: 30،ط: دار ارقم )میں ذکر کیا ہے۔
۴۔امام حاکم (م405 ھ)نے ’’المستدرک‘‘ (1/752) ،رقم الحدیث:2072،ط:دارالکتب العلمیۃ)میں ذکر کیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
واضح رہے کہ روايت مرفوع اور موقوف دونوں طرح مروی ہے ۔امام نسائی(م303ھ) نے موقوف روایت کو درست قراردیا ۔(2)
امام حاکم (م405 ھ)نے اس روایت کو نقل کرنے بعد فرمایا:یہ حدیث صحیح ہے اورمسلم کی شرط کے مطابق ہے لیکن امام بخاری اور امام مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے۔
علامہ منذری (م 656 ھ) نے بھی اس روایت کو’’صحیح ‘‘کہا ہے۔
علامہ بوصیری(م 840ھ)اور علامہ ہیثمی (م807ھ)نے اس روایت کونقل کرکے فرمایاکہ امام طبرانی نے اس کو روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح (روایت)کے رجال ہیں۔
علامہ ابن حجر عسقلانی (م 852ھ) نے تفصیلاً کلام نقل کرنے بعد فرمایاامام نووی (م 676 ھ) نے کہا ہے کہ امام نسائی (م 303 ھ)نے اس روایت کومرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح روایت کیا ہےاور دونوں کی سند ضعیف ہے، لیکن موقوف روایت کی صحت میں کوئی شک نہیں ہے۔اس کے روات صحیحین کے روات ہے اس کو ضعیف قراردینے کی وجہ نہیں ہے۔(۳)لہذا اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ بلا روایت ’’صحیح ‘‘ ہے اس کوبیان کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(1)المعجم الاوسط:(2/123،رقم الحدیث: 1455، ط: دار الحرمین)
عن أبي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قرأ سورة الكهف كانت له نورا يوم القيامة من مقامه إلى مكة، ومن قرأ بعشر آيات من آخرها، ثم خرج الدجال لم يضره، ومن توضأ، فقال: سبحانك اللهم وبحمدك، لا إله إلا أنت، أستغفرك وأتوب إليك، كتب في رق، ثم جعلت في طابع، فلم يكسر إلى يوم القيامة »لم يرو هذا الحديث مرفوعا عن شعبة إلا يحيى بن كثير "
والحدیث أخرجه ابن أبي شيبة‘‘في ’’مصنفه‘‘(1/231)،(19) و النسائي في ’’سننه الكبری‘‘(9/37)،( 9831) و ابن السُنّي في ’’عمل اليوم و والليلة ‘‘(35)(30) و الحاكم في ’’مستدركه‘‘(1/752)،(2072)
(2) و قد أورده في النسائي في ’’سننه الكبری‘‘(9/37)،( 9831) قال:قال أبو عبد الرحمن: هذا خطأ، والصواب موقوف، خالفه محمد بن جعفر فوقفه.
و أورده الحاكم في ’’مستدركه‘‘(1/752)،(2072)وقال :هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه ". ورواه سفيان الثوري، عن أبي هاشم فأوقفه
قال المنذري :في ’’ (1/105)،( 351)رواه الطبراني في الأوسط ورواته رواة الصحيح واللفظ له ورواه النسائي وقال في آخره ختم عليها بخاتم فوضعت تحت العرش فلم تكسر إلى يوم القيامة.وصوب وقفه على أبي سعيد.
قال الهيثمي: في ’’مجمع الزوائد‘‘(1/547 )،( 1231) رواه الطبراني في الأوسط ورجاله رجال الصحيح إلا أن النسائي قال بعد تخرجه في اليوم والليلة : هذا خطأ والصواب موقوفا . ثم رواه من رواية الثوري وغندر عن شعبة موقوفا.
و قال ابن حجر العسقلاني بعد أن أورد ه : في ’’ التلخیص الحبیبر ‘‘(1/300)واختلف في وقفه ورفعه وصحح النسائي الموقوف وضعف الحازمي الرواية المرفوعة لأن الطبراني قال في الأوسط: لم يرفعه عن شعبة إلا يحيى بن كثير.
قلت: ورواه أبو إسحاق المزكي في الجزء الثاني تخريج الدارقطني له من طريق روح بن القاسم عن شعبة وقال تفرد به عيسى بن شعيب عن روح بن القاسم قلت ورجح الدارقطني في العلل الرواية الموقوفة أيضا
تنبيهان:۔۔۔۔الثاني: قال النووي في الأذكار والخلاصةإن حديث أبي سعيد هذا ضعيف.
وقال في شرح المهذب رواه النسائي في عمل اليوم والليلة بإسناد غريب ضعيف رواه مرفوعا وموقوفا عن أبي سعيد وكلاهما ضعيف هذا لفظه فأما المرفوع فيمكن أن يضعف بالاختلاف والشذوذ وأما الموقوف فلا شك ولا ريب في صحته فإن النسائي قال فيه: حدثنا محمد بن بشار ثنا يحيى بن كثير ثنا شعبة ثنا أبو هاشم وقال ابن أبي شيبة: ثنا وكيع ثنا سفيان عن أبي هاشم الواسطي عن أبي مجلز عن قيس بن عباد عنه وهؤلاء من رواة الصحيحين فلا معنى لحكمه عليه بالضعف والله أعلم.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی