سوال:
جناب مفتی صاحب، السلام علیکم! میرا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا، مورخہ 03/01/22 کو میں نے غصے میں اپنی بیوی کو طلاق دیدی، میں شدید غصے میں تھا، مجھے جہاں تک یاد ہے میں نے دو بار بولا ہے، لیکن یقین سے نہیں کہہ سکتا، شریعت کی رو سے روشنی فرمائیں۔
اس وقت وہاں پر چار لوگ موجود تھے، لڑکی کا بھائی، لڑکی کی ماں، لڑکی کی بہن اور لڑکی کی خالہ، یہ چاروں سے پوچھا تو سب نے کہا کہ تم نے اپنی بیوی کو تین بار طلاق دی ہے۔
اب ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے کہ ہم نے بہت بڑی غلطی کی ہے، میرا ارادہ نہیں تھا، اب ہم دونوں پھر سے ایک ہونا چاہتے ہیں، شریعت کی رو سے ہماری رہنمائی کی جائے۔
میرے الفاظ یہ تھے "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں ہوش وہواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" تیسری بار کا یاد نہیں، گواہ کہتے ہیں کہ تین بار دی ہے۔
جواب: اگر طلاق کے بارے میں میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہو جائے، مثلاً بیوی تین طلاقوں کا دعویٰ کرے، اور شوہر دو کا اقرار کرے، تو شرعی حکم یہ ہے کہ بیوی شوہر کے تین طلاق دینے پر شرعی گواہ (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) پیش کرے، اگر بیوی شرعی گواہ پیش کردے، تو تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔
سوال میں ذکر کی گئی صورت کے مطابق بیوی کے گواہوں (بیوی کا بھائی، بہن، والدہ اور خالہ) کے بیانات کے مطابق آپ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، لہذا اس صورت میں آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، اور آپ کی بیوی آپ پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے۔
تین طلاقیں دینے کی صورت میں عدت کے دوران رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ہے، اور نہ ہی عدت گزرنے کے بعد اس شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے، جب تک کہ وہ عورت کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے اور اس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہ کرے، پھر اگر وہ طلاق دیدے یا انتقال کر جائے، تو عدت گزرنے کے بعد دونوں کی رضامندی سے نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں اسی شخص سے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔
نیز واضح رہے کہ گواہوں میں دو عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں، تو دعویٰ ثابت ہوجاتا ہے اور بہن کے حق میں بھائی، بہن اور خالہ کی گواہی معتبر ہوگی، والدہ کی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الدار قطنی: (باب في المرأۃ تقتل إذا ارتدت، رقم الحدیث: 4466)
عن عمران بن حصین رضي اللّٰہ عنہ قال: "أمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بشاہدین علی المدعي، والیمین علی المدعی علیہ".
رد المحتار: (468/2، ط: مکتبہ رشیدیہ)
"و المرأۃ کالقاضی اذا سمعتہ أو اخبرھا عدل، لایحل لھا تمکینہ و الفتویٰ علی انہ لیس لھا قتلہ ولا تقتل نفسھا بل تفدی نفسھا بمال او تھرب کما انہ لیس لہ قتلھا اذا حرمت علیہ وکلما ھرب ردتہ بالسحر و فی البزاریۃ عن الاوزجندی انھا ترفع الامر للقاضی، فان حلف و لا بینۃ لھا، فالاثم علیہ".
الفتاویٰ التاتار خانیة: (328/3، ط: إدارۃ القرآن)
"ففی کل موضع یصدق الزوج علی نفی النیہ انما یصدق مع الیمین".
الهندية:(الفصل الثالث في من لا تقبل شهادته، 469/3، ط: دار الفکر)
"لا تجوز شهادة الوالدين لولدهما وولد ولدهما وإن سفلوا ولا شهادة الولد لوالديه".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی