عنوان: کیا شوہر بیوی کو اس کے میکہ میں جانے سے روک سکتا ہے یا نہیں؟(9071-No)

سوال: بیوی کے والدین نے شوہر کو جھکانے، شرمندہ کرنے کی عادت بنا لی ہو، تو کیا شوہر اپنی بیوی کو اپنے والدین کے گھر جانے سے روک سکتا ہے یا کم جانے یا ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کا کہہ سکتا ہے؟
براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔

جواب: عام حالات میں شوہر کو چاہیے کہ اپنے خاندان اور برادری کے عرف کے مطابق اپنی بیوی کو اس کے والدین اور دیگر محارم عزیز و اقارب سے ملاقات کی اجازت دے، ورنہ ہفتہ میں ایک مرتبہ والدین سے ملنے اور سال میں کم از کم ایک مرتبہ دیگر محارم سے ملنے کا حق حاصل ہے۔

لیکن اگر بیوی کے وہاں جاکر ملنے کی صورت میں بہت زیادہ لڑائی جھگڑے یا گھر ٹوٹنے کا اندیشہ ہو، یا کسی بے دینی میں گرنے کا اندیشہ ہو، تو شوہر بیوی کو ان کے پاس جانے سے روک سکتا ہے۔
البتہ ایسی صورت میں بیوی کے والدین یا بہن بھائی شوہر کے گھر آکر ملنا چاہیں، تو اس میں شوہر رکاوٹ نہیں بن سکتا۔
جہاں تک لڑائی کا تعلق ہے، تو عام طور پر اس میں دونوں جانب سے اپنے رویوں میں اعتدال پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، بلاوجہ کی سختیاں کردینے سے معاملات حل نہیں ہوتے، یہ رشتہ ازدواجی ہے، جو باہمی محبت و الفت اور ایک دوسرے کو عزت دینے سے ہی چل سکتا ہے۔
نیز ان سب چیزوں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ رجوع الیٰ اللہ اور دعاؤں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو عزت دینے کے ساتھ ساتھ، استغفار اور اللہ تعالی سے دعاؤں کا اہتمام بھی کرتے رہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (602/3، ط: الحلبي، بيروت)
(ولا يمنعها من ‌الخروج إلى ‌الوالدين) في كل ‌جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار ولو أبوها زمنا مثلا فاحتاجها فعليها تعاهده ولو كافرا وإن أبى الزوج فتح (ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول زيلعي (ويمنعهم من الكينونة) وفي نسخة: من البيتوتة لكن عبارة منلا مسكين: من القرار (عندها) به يفتى خانية، ويمنعها من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمة، وإن أذن كانا عاصيين كما مر في باب المهر.
وفي رد المحتار تحته: (قوله على ما اختاره في الاختيار) الذي رأيته في الاختيار شرح المختار: هكذا قيل لا يمنعها من ‌الخروج إلى ‌الوالدين وقيل يمنع؛ ولا يمنعهما من الدخول إليها في كل جمعة وغيرهم من الأقارب في كل سنة هو المختار. اه فقوله هو المختار مقابله القول بالشهر في دخول المحارم كما أفاده في الدرر والفتح، نعم ما ذكره الشارح اختاره في فتح القدير حيث قال: وعن أبي ‌يوسف في النوادر تقييد خروجها بأن لا يقدرا على إتيانها، فإن قدرا لا تذهب وهو حسن، وقد اختار بعض المشايخ منعها من ‌الخروج إليهما وأشار إلى نقله في شرح المختار. والحق الأخذ بقول أبي ‌يوسف إذا كان الأبوان بالصفة التي ذكرت، وإلا ينبغي أن يأذن لها في زيارتهما في الحين بعد الحين على قدر متعارف، أما في كل جمعة فهو بعيد، فإن في كثرة ‌الخروج فتح باب الفتنة خصوصا إذا كانت شابة والزوج من ذوي الهيئات، بخلاف خروج الأبوين فإنه أيسر. اه وهذا ترجيح منه لخلاف ما ذكر في البحر أنه الصحيح المفتى به من أنها تخرج للوالدين في كل جمعة بإذنه وبدونه، وللمحارم في كل سنة مرة بإذنه وبدونه.

فتاویٰ محمودیہ: (597,598/18، ط: مکتبہ فاروقیہ)

کذا فی فتاویٰ بنوری تاون: رقم الفتویٰ: 144111200169، و 144209202304

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1014 Jan 10, 2022
kia shohar biwi ko us kea / kay mekeh me / mein jane / janey se rok sakta he ya nahi?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.