سوال:
براہ کرم حیات الصحابہ میں مذکور اس واقعہ کی تصدیق فرمادیں: "ایک صحابی کے گھر فاقہ تھا، گھر آکر انہوں نے بیوی سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کچھ نہیں ہے، پھر وہ صحابی گھر سے باہر جنگل یا مسجد میں گئے، اور دو سے تین مرتبہ نماز پڑھ کر دعا کی تو گھر کے تندور میں خود بخود روٹی پکنا شروع ہوگئیں اور چکی سے آٹا نکلنے لگا"۔ کیا یہ واقعہ مستند ہے اور کیا اس کو بیان کر سکتے ہیں؟
جواب: سوال میں دریافت کردہ واقعہ مختلف کتبِ احادیث میں مذکور ہے، ان میں سے اکثر کتب میں یہ واقعہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانے کا بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک انصاری صحابی کے ساتھ پیش آیا ، البتہ دیگر بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ گزشتہ زمانے میں بنى اسرائیل کے ایک شخص سے متعلق ہے۔تاہم اس واقعہ میں اس بات کا ذکر موجود نہیں ہے کہ وہ شخص باہر جاکر صلاۃ الحاجت پڑھتا، پھر گھر آ کر معلوم کرتا کہ کھانے کو کچھ ہے؟ اس طرح اس نے تین مرتبہ کیا، ایسی تفصیلات ہمیں کتبِ احادیث میں نہیں ملتی ہیں۔
البتہ کتبِ حدیث میں اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ ہمیں ملا ہے، جس کو آگے نقل کرنے کی گنجائش ہے۔ اس واقعہ کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص جب اپنے گھر گیا اور وہاں اپنے گھر والوں کو فاقہ وتنگدستی کی حالت میں پایا، تو وہ گھر سے باہر صحرا کی طرف چلا گیا، (ممکن ہے انہوں نے اس دوران اللہ تعالیٰ کے سامنےدعا ومناجات کى ہو) چنانچہ اس کی گھر والی نے جب اپنے شوہر کو بغیر کچھ کھائے باہر جاتے دیکھا، تو وہ چکى کى طرف گئى اور اسے تیار کیا، اور پھر تنور کى جانب بڑھی اور اس میں آگ سلگائى، اور دعا مانگے لگی کہ "اے اللہ !ہمیں رزق عطا فرما"۔ دعا سے فارغ ہوکر دیکھا کہ چکى کا برتن آٹے سے بھر چکا ہےاور تندور پر روٹیاں وافر مقدار میں موجود ہیں۔اسی دوران خاتون کا شوہر گھر آگیا، اس نے پوچھا میرے بعد تمہیں کھانے کو کوئى چیز ملى؟گھر والی کہنے لگى: جى ہاں! ہمارے پروردگار کى طرف سے یہ انعام ہوا ہے، چنانچہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى خدمت میں اس واقعہ کا ذکرکیا گیا، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر وہ اس چکى کو نہ اٹھاتے تو قیامت تک وہ گھومتى رہتى (اور اس سے آٹا نکلتا رہتا)۔(مسند أحمد: 16/ 384، رقم الحدیث: (10657)، ط: مؤسسة الرسالة)
نیز مسند احمد ہی میں ( 15/ 277 حدیث نمبر: 9464) اس واقعے کو قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:
"حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ دو میاں بیوی کسی بیابان میں رہتے تھے، تو ایک مرتبہ وہ شخص سفر سے واپس آیا اور اسے سفر کی وجہ سے تھکاوٹ اور شدید بھوک لگی ہوئی تھی، تو اس نے گھر والی سے کہا کہ کہ کھانے کو کچھ ہے؟ تو اس کی گھر والی کہنے لگی، خوش خبری ہو، اللّٰہ تعالیٰ کا رزق تمہارے پاس آنے والا ہے، تو اس کے شوہر نے اسے جلدی لانے کو کہا اور کہا: تیرا ناس ہو! اگر کچھ کھانے کو ہے تو لے آؤ، اس پر اس کی بیوی نے کہا کہ تھوڑی دیر صبر کرو، ہمیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے، جب اس کی بیوی کے بہلاؤکو زیادہ دیر ہونے لگی، تو اس نے پھر کہا: تیرا ناس ہو، اگر تیرے پاس روٹی ہے تو لے آ، مجھے نا قابل برداشت بھوک ستا رہی ہے، اس پر اس کی بیوی نے کہا: بس! ابھی تندور تیار ہوا ہے، جلدی نہ کریں، پھر اس پر وہ خاموش ہو گیا اور وہ کچھ دیر تک انتظار کرتی رہی، جب اس نے دیکھا کہ اب مجھے دوبارہ میرے خاوند کھانا لانے کو کہیں گے، تو اس عورت نے دل ہی دل میں سوچا کہ تندور میں جاکر دیکھوں تو سہی، جب وہ گئی تو دیکھا کہ واقعی تندور بکری کی بھنی ہوئی رانوں سے بھرا ہوا ہے اور چکی کے دونوں پاٹ آٹا نکال رہے ہیں، تو اس عورت نے چکی کو روک دیا اور تندور میں بکری کی بھنی ہوئی رانیں نکال لیں، تو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ عورت اس چکی کو نہ ہٹاتی اور اس کے دائیں بائیں سے آٹا لیتی رہتی، تو یہ چکی قیامت تک آٹا نکالتی رہتی"۔
نوٹ: مذکورہ مفصل روایت کو علامہ ہیثمى رحمہ اللہ نے "مجمع الزوائد" میں ذکر کیا ہے، اور روایت کے تمام راویوں کو صحیح حدیث کا راوی قرار دیاہے، لہذا اس روایت کو آگے نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخریج الحدیث
مسند الإمام أحمد: (رقم الحديث: 10658، 384/16، ط: مؤسسة الرسالة)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى أَهْلِهِ، فَلَمَّا رَأَى مَا بِهِمْ مِنَ الحَاجَةِ خَرَجَ إِلَى البَرِيَّةِ، فَلَمَّا رَأَتْ ذَلِكَ امْرَأَتُهُ قَامَتْ إِلَى الرَّحَى فَوَضَعَتْهَا، وَإِلَى التَّنُّورِ فَسَجَرَتْهُ، ثُمَّ قَالَتْ: اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا، فَنَظَرَتْ فَإِذَا الجَفْنَةُ قَدِ امْتَلَأَتْ، قَالَ: وَذَهَبَتْ إِلَى التَّنُّورِ فَوَجَدَتْهُ مُمْتَلِئًا. قَالَ: فَرَجَعَ الزَّوْجُ، قَالَ: أَصَبْتُمْ بَعْدِي شَيْئًا؟ قَالَتِ امْرَأَتُهُ: نَعَمْ مِنْ رَبِّنَا، قَامَ إِلَى الرَّحَى. فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: «أَمَا إِنَّهُ لَوْ لَمْ يَرْفَعْهَا لَمْ تَزَلْ تَدُورُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ».
والحديث أورده الهيثمي في «المجمع» (10/ 451-450)، كتاب الزهد/ باب فيمن صبر على العيش الشديد ولم يشك إلى الناس، معزوا لأحمد والبزار والطبراني، وقال: ورجالهم رجال الصحيح، غير شيخ البزار وشيخ الطبراني وهما ثقتان.
وأیضا أخرجه الطبراني في "المعجم الأوسط": (رقم الحديث: 5588، 370/5، ط: دار الحرمين)، والبیهقي في "شعب الإيمان": (رقم الحديث: 1278، 481/2، ط: مكتبة الرشد)، وأبوبکر البزار في "مسنده": (رقم الحديث: 10073، 311/17، ط: مكتبة العلوم و الحكم)
مسند الإمام أحمد: (رقم الحديث: 9464، 277/15، ط: مؤسسة الرسالة)
عن أبي هريرة: بَيْنَمَا رَجُلٌ وَامْرَأَةٌ لَهُ -فِي السَّلَفِ الْخَالِي-، لَا يَقْدِرَانِ عَلَى شَيْءٍ، فَجَاءَ الرَّجُلُ مِنْ سَفَرِهِ، فَدَخَلَ عَلَى امْرَأَتِهِ جَائِعًا قَدْ أَصَابَتْهُ مَسْغَبَةٌ شَدِيدَةٌ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَعِنْدَكِ شَيْءٌ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، أَبْشِرْ أَتَاكَ رِزْقُ اللهِ، فَاسْتَحَثَّهَا، فَقَالَ: وَيْحَكِ، ابْتَغِي إِنْ كَانَ عِنْدَكِ شَيْءٌ، قَالَتْ: نَعَمْ، هُنَيَّةً، نَرْجُو رَحْمَةَ اللهِ، حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَيْهِ الطَّوْلُ، قَالَ: وَيْحَكِ، قُومِي، فَابْتَغِي إِنْ كَانَ عِنْدَكِ خُبْزٌ فَأْتِينِي بِهِ، فَإِنِّي قَدْ بُلِغْتُ وَجَهِدْتُ، فَقَالَتْ: نَعَمْ، الْآنَ يَنْضَجُ التَّنُّورُ فَلَا تَعْجَلْ، فَلَمَّا أَنْ سَكَتَ عَنْهَا سَاعَةً، وَتَحَيَّنَتْ أَيْضًا أَنْ يَقُولَ لَهَا، قَالَتْ هِيَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِهَا: لَوْ قُمْتُ فَنَظَرْتُ إِلَى تَنُّورِي، فَقَامَتْ فَوَجَدَتْ تَنُّورَهَا مَلْآنَ جُنُوبَ الغَنَمِ، وَرَحْيَيْهَا تَطْحَنَانِ، فَقَامَتْ إِلَى الرَّحَى فَنَفَضَتْهَا وَإستَخْرَجَتْ مَا فِي تَنُّورِهَا مِنْ جُنُوبِ الْغَنَمِ. قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَوَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ، عَنْ قَوْلِ مُحَمَّدٍ ﷺ: «لَوْ أَخَذَتْ مَا فِي رَحْيَيْهَا، وَلَمْ تَنْفُضْهَا لَطَحَنَتْهَا إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ».
دلائل النبوة للبيهقي: (باب ما جاء في دعاء المرأة بالرزق، 105/6، ط: دار الكتب العلمية)
عن أبي هريرة: أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ ذَا حَاجَةٍ، فَخَرَجَ يَوْمًا وَلَيْسَ عِنْدَ أَهْلِهِ شَيْءٌ، فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: لَوْ أَنِّي حَرَّكْتُ رَحَايَ، وَجَعَلْتُ فِي تَنُّورِي سَعَفَاتٍ، فَسَمِعَ جِيرَانِي صَوْتَ الرَّحَى وَرَأَوْا الدُّخَانَ۔ فَظَنُّوا أَنَّ عِنْدَنَا طَعَامًا وَلَيْسَ بِنَا خَصَاصَةٌ، فَقَامَتْ إِلَى تَنُّورِهَا فَأَوْقَدَتْهُ وَقَدْ تَحَرَّكَ الرَّحَى، فَأَقْبَلَ زَوْجُهَا وَقَدْ سَمِعَ الرَّحَى، فَقَامَتْ إِلَيْهِ تَفْتَحُ لَهُ البَابَ، فَقَالَ: مَا كُنْتِ تَطْحَنِينَ؟ فَأَخْبَرَتْهُ، فَدَخَلَ وَإِنَّ رَحَاهُمَا لَتَدُورُ، وَتَصُبُّ دَقِيقًا، فَلَمْ يَبْقَ فِي البَيْتِ وِعَاءٌ إِلَّا مُلِئَ، ثُمَّ خَرَجَتْ إِلَى تَنُّورِهَا فَوَجَدْتُهُ مَمْلُوءًا خُبْزًا، فَأَقْبَلَ زَوْجُهَا فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: «فَمَا فَعَلَتِ الرَّحَى؟»، قَالَ: رَفَعْتُهَا وَنَفَضْتُهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَوْ تَرَكْتُمُوهَا مَا زَالَتْ كَمَا هِيَ لَكُمْ حَيَاتَكُمْ».
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی